national press club mein azadi izhar e raae haqeeqat ya faraib

نیشنل پریس کلب میں آزادی اظہار رائے، حقیقت یا فریب؟

تحریر: دانش ارشاد۔۔

گزشتہ برس اکتوبر کے وسط میں اپنی کتاب “آزادی’ کے بعد’ کی تقریب رونمائی کے لیے نیشنل پریس کلب میں یکم نومبر 2024 کے لیے وقت طے کیا۔ اس وقت پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کو کتاب دی اور ان کی موجودگی میں نیشنل پریس کلب کے صدر اظہر جتوئی سے ہال کا وقت حاصل کرنے کے بعد دیگر رسمی کارروائیاں مکمل کیں اور کتاب کی تقریب رونمائی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ تقریب سے دو دن قبل پریس کلب سے کال آئی اور بتایا گیا کہ آپ کی کتاب کی تقریب رونمائی نہیں ہو سکتی سیکرٹری نئیر علی صاحبہ نے انکار کر دیا ہے لیکن اس وقت وجہ نہیں بتائی گئی۔

اس دن شام کو تو آفس کی وجہ سے پریس کلب نہیں جا سکا لیکن دوسرے دن پریس کلب جا کر تقریب منسوخی کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو کہا گیا سیکرٹری صاحبہ سے معلوم کریں۔ سیکرٹری صاحبہ کے آفس گیا تو اتفاق سے صدر نیشنل پریس کلب بھی وہیں موجود تھے اور اسی وقت پی آئی اے یونین کی پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری منظور بھی وہاں بیٹھے تھے۔

میں نے سیکرٹری صاحبہ سے استفسار کیا کہ میری کتاب کی تقریب رونمائی کیوں روکی گئی تو انہوں نے کہا اس دن کوئی اور پروگرام ہے اس لئے نہیں ہو سکتی۔ میں نے بتایا کہ صدر نیشنل پریس کلب اور افضل بٹ کو بتانے کے بعد تمام رسمی کارروائی مکمل کی جا چکی ہے اور میں مہمانوں کو دعوت دے چکا ہوں اب مہمانوں سے معذرت کرنا میرے لیے شرمندگی کا باعث ہو گا جس پر انہوں نے صدر صاحب کو تضحیک آمیز انداز میں کہا ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں نے احتجاج کیا تو کہنے لگیں آپ جتنی بحث کر لیں تقریب نہیں ہو سکتی۔

بعد ازاں چند احباب نے بتایا کہ سیکرٹری پریس کلب نے ایک محفل میں گفتگو کے دوران کہا تھا کہ گلگت کے یوم آزادی کے دن پر ایک اینٹی نیشنل کتاب کی تقریب نہیں ہو سکتی۔

خیر اس کے بعد پریس کلب سے تو کتاب کی تقریب رونمائی متعلق بات نہیں کی لیکن کلب کے اظہار رائے کی آزادی کے بوگس نعرے اور دکھاوے کا علم تو ذاتی تجربے سے ہوا اس کے ساتھ ساتھ سیکرٹری کی کرسی پر بیٹھی خاتون کے گھمنڈ نے واضح کیا کہ کرسی سب کی اصلیت واضح کرتی ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے جو لوگ کلب (جرنلسٹس پینل) پر اقتدار برقرار رکھے ہوئے ہیں ان کے ہوتے ہوئے نیشنل پریس کلب میں اظہار رائے کی آزادی عبث ہے۔

مذکورہ واقعہ میری ذات سے پیش آیا تو حقیقت واضح ہوئی۔ ممکن ہے کل یہ پھر سے سیکرٹری کی سیٹ پر ہوں گی اور مستقبل میں صدر بھی تو اظہار رائے کے لئے پریس کلب سے جو دکھاوے کے لئے آواز بلند ہوتی ہے شاید وہ بھی نہ ہو۔اس سے قبل آزاد پینل کے صدر شکیل قرار کے ہوتے ہوئے منظور پشتین کے لیے دروازے بند کر دئے گئے تھے۔

نومئی 2023 کے بعد جس طرح نیشنل پریس کلب پی ٹی آئی سے تائب ہونے والوں کی پریس کانفرنسز میں کردار ادا کرتا رہا وہ بھی دلچسپ ہے۔ آج تک پریس کلب یہ نہیں بتا سکا کہ اس وقت ہال کی بکنگ کون کرواتا تھا اور پریس کانفرنس کی فیس کی ادائیگی کون کرتا تھا۔

اسی باڈی کے ہوتے ہوئے ملک بھر سے کئی میڈیا ورکرز کو ملازمت سے جبری فارغ کر دیا ان کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ صاحب کے اپنے ادارے جنگ جیو گروپ کے ملازمین دفتر کے باہر تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں، تمام پینلز کمپین کے دوران ان سے خریت معلوم کرنے گئے ہوں گے شاید، کئی میڈیا ہاوسز میں ورکرز کو دو سے چار ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں ان پر تمام پینلز کی زبانوں پر تالے لگے نظر آتے ہیں۔۔(دانش ارشاد)۔۔

(دانش ارشاد صاحب کی یہ تحریر ان کی سوشل میڈیا اایپ سے لی گئی ہے۔ جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔ نیشنل پریس کلب کی باڈی یا کسی عہدیدار کی جانب سے اگر کوئی اس پر موقف دینا چاہے تو ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں