تحریر: علی عمران جونیئر
دوستو، بات ہورہی ہے نسلی اور فصلی کی۔۔ ان دونوں کے درمیان کافی فرق ہوتا ہے۔۔ نسلی انسان یا کوئی بھی جاندار اس کی اپنی ایک ’’ویلیو‘‘ ہوتی ہے جب کہ فصلی انسان ہو یا کوئی بھی جاندار، اس کا کوئی دین ، ایمان نہیں ہوتا، وہ ہوا کی لہروں سے ڈولتا رہتا ہے۔۔شدید قسم کا مفاد پرست ہوتا ہے، کمرشل ذہنیت والے ’’ فصلی‘‘ صرف وہی کام کرتے ہیں جس میں انہیں کوئی فائدہ ہورہا ہو۔۔ نسلی اور فصلی کے درمیان اور بھی کئی تضادات ہیں،چلئے پھر آج کی اوٹ پٹانگ باتیں شروع کرتے ہیں۔۔ خواتین پر تشدد کے حوالے سے پاکستان بھر کی ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس صوبے میں کتنے فیصد خواتین جنسی، جسمانی یا ذہنی تشدد کا شکار ہو چکی ہیں۔پی ڈی ایچ ایس کی طرف سے جاری کی گئی اس سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین پر سب سے کم تشدد صوبہ سندھ میں ہوا، جہاں صرف 18فیصد خواتین کو ازدواجی زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی، جسمانی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرے نمبر پر گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں 31فیصد، تیسرے نمبر پر پنجاب اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 32 فیصد خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچستان میں یہ شرح 49فیصد اور خیبرپختونخوا میں 52فیصد رہی جبکہ فاٹا میں سب سے زیادہ خواتین کو تشدد کا شکار بنایا گیا جہاں یہ شرح 66فیصد رہی۔ رپورٹ کے مطابق یہ ڈیٹا 15سے 49سال عمر تک کی شادی شدہ، طلاق یافتہ یا بیوہ خواتین کے ساتھ پیش آنے والے تشدد کے واقعات پر مبنی تھا۔۔ویسے ہمارے نزدیک عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانا،نسلی انسان کا کام نہیں ہوتا۔۔ بات ہورہی ہے نسلی اور فصلی کی۔۔کہتے ہیں کہ عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔۔۔ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئے حاضرہوا،قابلیت پوچھی گئی۔۔ کہا،سیاسی ہوں۔(عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ہیں)بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی،اسے خاص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج بنا دیاگیا، پہلے والا انچارج فوت ہوگیا تھا جس کی وجہ سے یہ اسامی خالی تھی۔۔چند دن بعد،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا،اس نے کہا۔۔نسلی نہیں ہے۔۔ بادشاہ کو تعجب ہوا، اس نے جنگل سے(سائیس) کو بلاکر دریافت کیا۔۔اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ہے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا بڑھا۔۔مسئول کو بلایا گیا،اس سے پوچھا گیا کہ۔۔تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ہے؟؟؟اس نے کہا۔۔۔جب یہ گھاس کھاتا ہے توو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے، جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لیکر سر اٹھا لیتا ہے۔۔بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثرہوا،مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا۔۔اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا،چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،اس نے کہا۔۔طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں لیکن ۔۔شہزادی نہیں ہے۔۔بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، حواس بحال کئے، ساس کو بلا لیا اور معاملہ اس کے گوش گذار کیا۔۔ساس کہنے لگی۔۔ حقیقت یہ ہے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ہماری بیٹی کی پیدائش پرہی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ہماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ہو گئی تھی،چنانچہ ہم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا۔۔بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا،تم کو کیسے علم ہوا؟؟اس نے کہا۔۔۔ اس کاخادموں کے ساتھ سلوک جاہلوں سے بدتر ہے۔۔بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ہوا۔۔بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام دیں ۔ ۔ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا۔۔کچھ وقت گزرا،مصاحب کو بلایا،اپنے بارے دریافت کیا،۔۔ مصاحب نے کہا، جان کی امان۔۔بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا۔۔نہ تو تم بادشاہ زادے ہو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ہے۔۔بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،سیدھا والدہ کے محل پہنچا،والدہ نے کہا یہ سچ ہے۔۔تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا۔بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا،تجھے کیسے علم ھوا؟؟؟اس نے کہا۔۔بادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیا کرتے ہیں توہیرے موتی، جواہرات کی شکل میں دیتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں عنایت کرتے ہیں۔۔یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں ،کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہو سکتا ہے۔۔عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔۔عادات، اخلاق اور طرز عمل۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ہیں۔ ایک بڑی کمپنی نے اپنے ورکرز کے لیے ایک جھیل کے کنارے سیر و تفریح کا انتظام کیا۔ یہ جھیل مگرمچھوں سے بھری ہوئی تھی۔ کمپنی نے بطور تفریح لوگوں سے کہا: جو صحیح سالم اس جھیل کو پار کر لے گا اسے دس لاکھ ڈالر انعام ملے گا اور اگر مگرمچھوں نے اسے نگل لیا تو اس کے ورثاء کو دس لاکھ ڈالر ملے گا۔ورکرز میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی لیکن اچانک ان میں سے ایک شخص نے جھیل میں چھلانگ لگادی اور ہانپتے کانپتے بحفاظت پار کر لیا۔اس مقابلے میں کامیاب ہو کر وہ آدمی اپنے گاؤں کا کروڑ پتی بن گیا لیکن اس نے معلوم کرنا چاہا کہ آخر کس نے اسے دھکا دیا تھا بالآخر اسے معلوم ہوا کہ وہ اس کی بیوی تھی جس نے اسے پیچھے سے دھکا دیا تھا۔۔اسی وقت سے یہ مقولہ مشہور ہو گیا کہ ۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔۔ چلیں باباجی کی کچھ ’’نسلی ‘‘ باتیں بھی آپ سے شیئر کرلیتے ہیں۔۔باباجی کہتے ہیں، اچھے وقتوں میں اپنوں کو چھوڑ کر برے وقت میں اپنوں کو یاد کرنا بے وقوفی ہے۔۔انہی کا فرمانا ہے۔۔جب عورت کی اولاد جوان ہوجائے تو اسے اپنا غصہ اتارنے کے لئے کوئی تو چاہیے ہی ہوتا ہے پھر اس کی نظر گھر کے ایک کونے میں چارپائی پر پڑے اخبار پڑھتے یا موبائل کے ساتھ بزی شوہر پر جاٹکتی ہے۔۔باباجی کا ہی کہنا ہے کہ۔۔لوگ شادی اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ ایک خوشگوار زندگی گزار سکیں اور جو نہیں کرتے وہ بھی اسی لئے نہیں کرتے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ۔۔مڈل کلاس انسان کبھی بور نہیں ہوتا، اس کی زندگی میں ہر وقت کوئی نہ کوئی مسئلہ ہواہی رہتا ہے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات اگر پاکستانی عوام ایک دوسرے کو چونا لگانے سے بہتر ہے گھر، گلی، محلے کو چونا لگائیں تو پاکستان کتنا خوبصورت نظر آئے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔