تحریر: سید یوسف علی
ناصر بیگ چغتائی ایک ذہین، باخبر، مستعد، مستند اور منجھے ہوئے زیرک پاکستانی صحافی ہیں جو ایک طویل عرصے سے ابلاغ عامہ کی گلیوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ انہیں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ملکہ حاصل ہیں ۔ وہ کبھی لفظ جوڑتے نہیں بلکہ تخلیق کرتے ہیں ۔ صحافت میں ایسی ہمہ جہت شخصیات بمشکل نظر آتی ہیں جنہیں عوامی دلچسپی کے ہر شعبے پر عبور حاصل ہو۔ وہ بہ یک وقت لکھاری بھی ہیں اور تجزیہ کار بھی، ایک نامور براڈ کاسٹر بھی ہیں اورقابل منتظم بھی ، تجزیہ کار بھی اور حالات حاضرہ کے ایک مستند ماہر بھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ میڈیا اداروں میں ان کے نام میں شامل تین حصوں کے ابتدائی الفاظ ’’ این بی سی ‘‘ ان کی شناخت کا باعث بن گئے۔ یہ نام جیو ٹیم کی تربیت کرنے والے غیر ملکی صحافیوں نے مشترکہ طور پر دیا تھا ۔ پرنٹ میڈیا میں ان کو اب بھی چیف صاحب کہا جاتا ہے۔ معروف اینکر پرسن اور پروگرام کپیٹل ٹاک کے ہوسٹ حامد میر کہتے ہیں کہ ناصر بیگ چغتائی کے نام کے مخفف این بی سی کو صحافت کی عینک سے دیکھیں تو اس کا مطلب نیوز بریکنگ کمپنی بنتا ہے اور ناصر بیگ چغتائی بریکنگ نیوز کے وہ ماہر ہیں جن کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ اعلی ذوق کے لکھاری ہیں اور انکے کمال فن کا نمونہ ان کی ناول نگاری ہے ۔ وہ صحافت کے مستری نہیں بلکہ ایک ایسے آرکیٹکٹ اور انجنیئر ہیں جنہوں نے صحافت کے صحرائوں میں ہمیشہ جگمگاتے تاج محل کھڑے کیئے ہیں ۔ان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ادارے اس بات کی ناقابل تردید ثبوت ہیں ۔
بطور یونی ورسٹی انٹرن بھٹو صاحب کے دور میں اخبار مساوات سے کارزار صحافت میں قدم رکھا ۔ پھر جب 5جولائی 1977 کے مارشل لا کے بعد مساوات اخبارضیا الحق نے بند کردیا توانہیں امن کے صحافی مالکان لے گئے وہاں ڈیسک پر کام کیا اور شفٹ انچارج تک کے عہدے پر پہنچے ۔ میر خلیل الرحمان نے سینسر کے باوجود خبر کی گنجائش پیدا کرنے اور سرخیوں کی کاٹ سے متاثر ہو کر خود فون کیا اور چائے پر بلایا ۔ میر صاحب اتنے متاثر ہوئے کہ جنگ میں براہ راست سینئر گریڈ میں رکھا ۔
ناصر بیگ چغتائی اپنے پورے صحافتی کیرئیر میں کبھی عہدوں اور اداروں کے محتاج نہیں رہے بلکہ عہدوں نے ہمیشہ انہیں اپنی زینت اور اداروں نے اپنی شان تصور کیا ۔ انہوں نے جیو ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر نیوزکی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔این بی سی جدہ ، سعودی عرب سے شائع ہونے والے مقبول اردو روزنامہ اردو نیوز کے بانی ایڈیٹر رہے ۔ مختلف اداروں میں اپنے صحافتی اور انتظامی جوہر دکھانے کا سلسلہ انہوں نے ابتدا سے ہی جاری رکھا ہوا تھا ۔ اے آر وائی ون ورلڈ ٹی وی میں بھی بطور چینل سربراہ خدمات سرانجام دیں ۔ وہ جیو نیوز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بھی رہے جبکہ انہوں نے اب تک ٹی وی چینل میں بھی ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کی حیثیت میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور سینئر ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ بھی رہے ۔ 92 نیوز ایچ ڈی ٹی وی پر بطور میزبان ایک پروگرام این بی سی @ 92 کرتے رہے ہیں۔وہ 92 میں بھی ایگزیکیٹو ڈائرکٹر تھے۔
ناصر بیگ چغتائی 1980 کی دہائی میں جنگ گروپ آف پبلیکیشنز سے وابستہ ہوئے،جوائنٹ نیوز ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، چیف نیوز ایڈیٹر اور ڈپٹی ایڈیٹر روزنامہ جنگ کے عہدوں پراپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ نجی الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں کوابھی اپنے سحر میں مبتلا کرنے کا آغاز کیا تھا کہ ناصر بیگ چغتائی 2002 میں جیو نیوز کے قافلے میں بطور سینیر ایگزیکٹیو پروڈیوسر شامل ہوگئے اور اس ٹیم کی سربراہی کی جس نے دبئی میں جیو نیوز کی نشریات کا آغاز کیا تھا۔
جیو کی ہائرنگ کے لئے ہزاروں درخواستوں کی شارٹ لسٹنگ میر شکیل الرحمن نے ان ہی سے کرائی اور جب ٹیم ہائرنگ کا وقت آیا تو ان کا تبادلہ جیو میں دگنی تن خواہ پر کردیا گیا۔ پہلے یہ پلان تھا کہ وہ کراچی میں ان پٹ میں رہیں گے دبئی کے لئے لیڈر سرکاری چینل سے لئے گئے تھے لیکن دو ماہ کی تربیتی مشقوں اور خاص طور سے شیرٹن بم دھماکے میں 6 گھنٹے کی براہ راست ٹیسٹ ٹرانسمیشن کے بعد غیر ملکی انسٹرکٹرز جن کا تعلق امریکی ٹیلی ویژن سی این این اور دوسرے چینلز سے تھا متفقہ طور ہر تجویز کیا کہ ناصر بیگ چغتائی لانچنگ ٹیم کے ہیڈ ہوں گے۔ نیوز ڈاریکٹر اظہر عباس سی ای او میر ابراہیم نے بھی یہی تجویز کیا لہذا وہ ٹیم لے کر زندگی کے انتہائی مشکل مشن پردبئی روانہ ہوئے اور جیو کو مقبولیت کی معراج تک پہنچانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔
بطور ٹیم اظہر عباس ناصر بیگ چغتائی اور ایم کے عباس کا تاریخی کارنامہ عراق کی دوسری جنگ کے بارے میں اپنے قارئین کو براہ راست نشریات کے ذریعے صورت حال سے باخبر رکھنے کے لئے ’’ وار روم‘‘ کا قیام تھا۔ یہ پروگرام دس گھنٹے براہ راست ہوتا تھا اور ناصر بیگ چغتائی اس کے اکیلے ہوسٹ تھے ۔ وار روم دو مہینے چلا اور صدام کی شکست پر ختم ہوا ۔ جب صدام حسین کو صبح 4 بجےپھانسی ہوئی تو جیو نے اس کو بھی براہ راست دکھایا۔ ناصر بیگ چغتائی ہی اس کے میزبان تھے۔ ناصر بیگ چغتائی براہ راست ترجمہ کے اس قدر ماہر تھے کہ پنٹاگون اور پیرس سے فوجی بریفنگ براہ راست اردو میں پیش کرتے تھے ۔ جلد ہی کامران خان نے ان کو جوائین کرلیا ۔
انہوں نے انگریزی اور فرانسیسی کلاسیکل ادبا کی تحاریر کو پاکستان کے سب سے بڑے ہفت روزہ اخبار جہاں کے لیئے ترجمہ کیں اور اس سے عالمی شہرت حاصل کی ۔ان کے ہزاروں کی تعداد میں تخلیقی آرٹیکلز، کالمز، خبریں اور تراجم متعدد اخبارات، رسائل و جرائد بشمول مساوات، امن اور جنگ میں چھپ چکے ہیں ۔ ناصر بیگ چغتائی ایک مختلف انداز کے ناول نگار بھی ہیں اور انہوں نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی پر’’ سلگتے چنار‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھا جس کے کردار اور موضوعات حقیقی ہیں۔ناصر بیگ چغتائی کے ناول سلگتے چنار کا دوسرا حصہ جلد شائع ہورہا ہے جبکہ 3 دوسرے ناول تیار ہیں ۔ کالم اور برصغیر کے اہم سیاستدانوں کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب تکمیل کے مراحل میں ہے۔
ناصر بیگ چغتائی ان چند بیرونی صحافیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے سری نگر اور جموں کا دورہ کیا ۔ انہوں نے اپنا ٹی وی پروگرام بھی سری نگر یونیورسٹی اور سری نگر کے لال چوک میں ریکارڈ کیا جو کہ ہندوستانی افواج اور حریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کا مرکزی مقام ہے ۔ ناصر بیگ چغتائی نے فارن افئیرز کے نام سے جیو ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے ایک مقبول پروگرام کی میزبانی کی جسکے لگ بھگ 1000 پروگرامز نشر ہوئے ۔اس پروگرام نے پاکستان کو 50 سے زیادہ ماہرین دئے جو آج بھی ٹی وی پر نظر آتے ہیں۔
ان کے اس پروگرام میں پیکیجز، نامی گرامی سیاستدانوں کے ساتھ مباحثے اور متعلقہ افراد سے انٹرویوز شامل ہوتے تھے ۔اس پروگرام میں بین الاقوامی حالات حاضرہ اور خصوصا ان واقعات کا جن کا پاکستان پر بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی اثر پڑتا تھا، بحث اور تجزیہ کیا جاتا تھا ۔ پروگرام فارن افئیرز میں ناصر بیگ چغتائی تمام اہم امور اور موضوعات بشمول فلسطین ، کشمیر، عراق، افغانستان، ڈبلیو ٹی او، یو این کی تنظیم نو، جنوبی ایشیاء اور امت مسلمہ کے مسائل پر سیر حاصل اور نتیجہ خیز بحث کراتے تھے۔
ناصر بیگ چغتائی وہ پہلے پاکستانی صحافی ہیں جنہوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس موضوع پر ہروگرام کیا کہ کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے؟ انہوں نے بول نیٹ ورک کے شعبہ نیوز میں بطور سینئر ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ کام کیا۔ ناصر بیگ چغتائی نہ صرف یہ کہ ایک ذہین اور پیشہ ور پاکستانی صحافی ہیں بلکہ وہ اپنے دامن کو ہر قسم کے داغوں سے بچاتے ہوئے انتہائی دلیری اور بے باکی سے صحافتی حق گوئی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ناصر بیگ چغتائی نے کئی بیرونی ممالک کے دورے کیئے جن میں جنوبی ایشیاء، مشرق وسطی، مشرق بعید اور شمالی امریکہ کے ممالک شامل ہیں ۔ انہوں نے پوٹ رجایا، ملائیشیا اور مکہ سعودی عرب میں اسلامی سربراہی کانفرنسیسز اور اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے سیشنزکی زبردست کوریج کی۔ ناصر بیگ چغتائی ایک متحرک، فعال اور سیماب صفت صحافی ہیں جنہیں کام کیئے بنا چین نہیں آتا۔(سید یوسف علی)