کراچی کے سینئیر صحافی کو ممنوعہ لٹریچر کے ذریعے نفرت پھیلانے اور دہشت گرد تنظیم کی سہولت کاری کے الزام میں انسداد دہشت گردی کی عدالت جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف سندھ کورٹ میں کی گئی اپیل کی سماعت کے دوران بدھ کی صبح عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 9 جنوری کو عدالت میں جواب جمع کرانے کے احکامات جاری کردئیے۔ صحافی نصر اللہ چوہدری کے وکیل محمد فاروق ایڈوکیٹ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے دی گئی سزا بنیادی قانون کے اصول کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘نصر اللہ چوہدری کو غیر قانونی حراست میں رکھ کر 3 دن بعد گرفتاری ظاہر کی گئی، ان کے خلاف ممنوعہ لڑیچر رکھنے کے کوئی شواہد پیش نہیں کئے گئے، شواہد تو درکنار ایف آئی آر ہی قانون کے برخلاف اور غیر قانونی ہے۔‘ واضح رہے کہ کراچی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 26 دسمبر 2019 کو صحافی نصر اللہ چوہدری کو ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں 5 سال قید، 10 ہزار جرمانہ جب کہ عدم ادائیگی پر مزید ایک ماہ سزا کا حکم دیا تھا۔ جب کہ عدالت نے انہیں مبینہ طور پر کالعدم تنظیم سے رابطہ کرنے پر 6 ماہ قید، 5 ہزار جرمانہ اور عدم ادائیگی پر 15 روز مزید سزا کا حکم سنایا تھا۔ مقامی اردو اخبار روزنامہ ’نئی بات‘ سے منسلک صحافی اور کراچی پریس کلب کے رکن نصراللہ چوہدری کو نومبر 2018 کو کراچی کے علاقے سولجر بازار سے گرفتار کیا گیا تھا۔ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے پولیس نے دعوی کیا تھا کہ ان کے قبضے سے ’نوائے افغان جہاد‘ میگزین کی کاپیاں، ’راہ جہاد‘ اور ’پنجابی طالبان‘ نام کی کتابوں کے ساتھ دیگر کتابیں برآمد ہوئی تھیں جو دہشت گردی کی ترغیب دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس نے ان پر الزام عائد کرتے ہوئے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ وہ کالعدم تنظیم القاعدہ کے دہشت گرد خالد مکاشی سے رابطے میں تھے اور ان کے لیے سہولت کاری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے بدھ کی رات جاری کردہ ایک بیان میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صحافی نصراللہ کے خلاف مقدمے کو خارج کرکے انھیں رہا کیا جائے۔
نصراللہ چودھری نے سزا چیلنج کردی۔۔ممنوعہ لٹریچر کیس، صحافی کی اپیل پر نوٹس جاری۔۔
Facebook Comments