تحریر: بادشاہ خان۔۔
دنیا بھر میں ریاست کا چوتھا ستون صحافت کو کہا جاتا ہے ، صحافی ریاست ،حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہےں ، جس کی وجہ سے ان کا احترام اور ان کے الفاظ اور آواز کو نقارہ خلق سمجھا جاتا ہے ،اسے دبایا نہیں جاتا ، ریاستی و صحافتی اخلاقیات و حدود کے اندر ہر قسم کی رپورٹنگ تجزیے،تبصرے ،کالم اور تنقید کو مثبت انداز میں لیا جاتا ہے ، اس پر فیصلے کئے جاتے ہیں، لیکن افسوس پاکستان میں کسی بھی دور حکومت میں ایسا نہیں ہو، ہر حکمران کی خواہش رہی ہے کہ اس کے سفید کو سفید اور سیاہ کو صحافی سیا ہ قرار دے، لیکن ہر دور میںپاکستانی صحافیوں نے قربانیاں دیں ، پاکستان میں جب بھی صحافتی جدوجہد کی بات کی جائے گئی، تو کراچی پریس کلب کا نام صف اول پریس کلبوں میں آئے گا ،تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، ایک بار پھر صحافت اور صحافی نشانے پر ہیں،کراچی پریس کلب کے ممبر اور سینئر صحافی نصراللہ چوہدری کو سندھ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نام و نہاد ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں 5 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ جسے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنچ کردیا گیا ہے۔نصراللہ چوہدری کو پریس کلب پر غیر قانونی چھاپے کی ہزیمت چھپانے کے لیئے گزشتہ برس نومبر میں گرفتار کیا گیا۔۔اور تین دن تک غیر قانونی حراست میں رکھنے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے عدالت میں ایک بھونڈے الزام میں پیش کیا گیا تھا،اسے آزادی رائے کے خلاف نہ سمجھا جائے تو کیا نام دیا جائے۔
پی ایف یو جے دستور اور کے یو جے دستور کا سینئر صحافی نصر اللہ چوہدری کی سزا پر اظہار تشویش,کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے نوٹس لینے کی اپیل کی ہے ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور اور کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور نے سینئر صحافی اور ممبر کراچی پریس کلب نصر اللہ چوہدری کو نام نہاد ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں سزا سنانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔اپنے مشترکہ بیان میں پی ایف یو جے دستور اور کے یو جے دستور کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ نام نہاد ممنوعہ لٹریچر کے الزام میں سینئر صحافی کو سزا دینا ایک انوکھا فیصلہ ہے۔۔حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے زریعے دھمکیوں، تشدد ہراساں کرنے کے عمل کے ذریعے صحافتی حلقے پر دباو ڈال رہی ہے،آزادی اظہار رائے کو دبانے کے لئے بے شمار صحافیوں کو اغواکر کے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جعلی اور بے بنیاد مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے، جبکہ گذشتہ چند برسوں میں سندھ بھر کے بے شمار صحافیوں پر دہشت گردی کے الزمات بھی عائد کئے گئے۔پی ایف یو جے دستور اور کے یو جے دستور نے ان تمام غیر قانونی ہتھکنڈوں کے باوجود آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کے لئے جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔صحافتی تنظیموں کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ایک سینئر صحافی کو اس طرح سزا سنانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، اس فیصلے سے دنیا بھر میں پاکستان میں آزادی صحافت سے متعلق منفی تاثر بھی پیدا ہو گا لہذا چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نصر اللہ چوہدری کی سزا اور صحافیوں پر غیر قانونی مقدمات کے اندراج کا نوٹس لیں۔
کرپشن سمیت کئی معاملات پر یوٹرن کے بعداب تبدیلی سرکار کا نشانہ صحافی ہیں۔گذشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں موجود مافیا ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے‘ اخبارات میں بھی یہی مافیا بیٹھا ہواہے‘ ہر روز بری خبریں، کئی صحافی پرانے سسٹم سے پیسے بنارہے تھے ان کی روزی بند ہے اس لئے خلاف لکھ رہے ہیں، کرپٹ سیاستدانوں کا مافیا روز حکومت کیخلاف شور مچاتا ہے انہیں جیل جانے کا ڈر ہے، اگلا سال ان کیلئے بہت برا ہوگا، مزید چیخیں گے، سارے چور ڈاکو پھر سے شور مچائیں گے‘جو جتنا بڑاچور اتنا ہی زیادہ شور، ان لوگوں کوڈر ہے کہ حکومت کامیاب ہو گئی تو وہ جیلوں میں جائیں گے۔عوام کو میرے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا‘میں وزیر اعظم بنا تو قوم کوکہا تھا کہ گھبرانا نہیں‘ہم مشکل وقت سے گزریں گے کیونکہ اصلاحات مشکل ہوتی ہیں‘ اب مشکل وقت گزار لیا، 2020ءمیں آپ کو تبدیلی اور خوشحالی نظر آئے گی، نوکریاں ملیں گی۔
قارئین اب خود غور کریں شور اس وقت عوام ،تاجر مچارہے ہیں یا سیاست دان ،بیوروکریٹس؟ جیلوں میں عوام بند ہے یا ملک لوٹنے والے ؟ کن کو رہائیاں مل رہی ہیں، خیربات دوسری طرف نکل جائے گی ،ہرملک کی بیورو کریسی میں موجود چند بیورو کریٹس،سیاست دان اور کچھ ریاستی ادارے کے افسران صرف خود کو ہی سب سے بڑا محب وطن سمجھتے ہیں اور ساتھ ان کے دماغ میں جو خیال موجود یانمودارہوتا ہے اسے ملک و قوم کے مفاد میں بہترین سمجھتے ہیں،اس میں چند مفاد پرست افراد اور ٹولوں کا بھی قصور ہے کہ جو ان کے افراد کے دماغ تعریف کرکے مزید خراب کردیتے ہیں، اس وقت ملک میںکیا صورت حال ہے؟سب کے سامنے ہے ،صرف ڈیڑھ سال میں اربوں ڈالرز قرضہ مزید لیا جاچکا ہے ،سی پیک،کشمیرسمیت کئی مسئلے ایسے ہیں کہ جس پر عوام کی رائے کو اہمیت نہیں دی جارہی،خارجہ پالیسی کی ناکامی عیاں ہے ،مسلم ممالک ناراض ہورہے ہیں،پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈیلیور کرنے میں واضح ناکام رہی ہیں ، وہ خارجہ پالیسی کا میدان ہو یا معاشی اصلاحات کا، نہ بھا شا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی اور نہ ہی پاکستان اسٹیل ملز کو چلایا گیا،کرپشن کے خلاف اقدامات بھی اس طرح نہیں ہوئے جس طرح قوم توقع کررہی تھی ، چند سیاسی گرفتاریاں اور ان سے بھی سال میں ایک ٹکہ وصول نہیں کیا، اور اوپر سے مقبوضہ کشمیر کے تنازعے پر نہ تو اسلامی دنیا میں کامیاب لابنگ کرسکی ،اور نہ ہی کشمیری مسلمان مطمئن ہوئے ، نہ ٹرمپ مطمئن ہے، اور نہ ہی طالبان ، سعودی عرب بھی راضی نہیں ایران بھی خوش نہیں اور یہی سب صحافی رپورٹ کررہے ہیں ، جس سے حکومت پریشان ہے۔
جمہوری ملک میں آمرانہ طرز حکومت اس نظام کی تباہی بھی ظاہر کرتی ہے کہ ٹالرنس اور عدم برداشت کس حد تک ختم ہوچکا ہے ،اگر اس موقع پر ملک بھر کے پریس کلب اور صحافی ایک نہ ہوئے تو بچی کھچی کمزور سی آواز اور کمزور سا سچ بھی ختم ہوجائے گا ، اگر صحافی اپنی جدوجہد کےلئے ایک نہیں ہوسکتے تو پھر کیا وہ ریاست، حکومت ،اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے اہل ہیں ، کراچی پریس کلب اور ان کے رہنماوں کے بلند حوصلے کو میں سلام پیش کرتا ہوں ، ڈٹ جانے اور مضبوط موقف نے اس عظیم پریس کلب کا نام ایک بار پھر دنیا بھر میں روشن کردیا ہے ،سوال یہ کہ پاکستان میں صحافت اور صحافی کا کیا ہوگا ؟قلم کے مزدور اس پر اپنی رائے جس حد تک اور جس فورم تک ممکن ہو عام کریں کیونکہ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے ، پاکستان کی آواز کا مسئلہ ہے ،ماضی میں بھی صحافیوں کودبانے کی کوشش کی گئی مگر جو ڈٹ گئے وہی امر ہوگئے۔سوال نصراللہ چوہدری کی سزا کا بھی ہے اور صحافت کے مستقبل کا بھی۔۔۔(بادشاہ خان)۔۔
(بلاگر کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔)