nakafi hein lafazian

نا قابلِ اشاعت لوگ۔۔

تحریر: شکیل بازغ۔۔

ہر حرف حتٰی کہ اعراب اور نقطے کی بھی قیمت یا ملتی ہے یا پھر ادا کرنا ہوتی ہے۔ لکھاری شوقین بھی ہوتے ہیں اور نظریاتی بھی۔ایک وہ ہوتے ہیں جو خود کو صحافی کہلانا چاہتے ہیں۔ وہ ہر لفظ پابندیوں کے ضابطوں کے پلڑے میں تول کر لکھتے ہیں۔ وہ لکھتے رہنا چاہتے ہیں۔ جس جانب سے تپش محسوس ہو ادھر کا رُخ نہیں کرتے۔ یہ موقع پرستی پر یقین رکھتے ہیں ان کی تحاریر میں شخصیات کی حُب کا عنصر ملتا ہے۔ یہ بین السطور پیغام بیچنے کا ہُنر جانتے ہیں۔ ذو معنویت کے پیرائے میں یہ مخصوص پارٹی یا شخصیت کی زبان بولتے ہیں۔ یہ قابل اشاعت ہوتے ہیں۔ علم و فن سے خاصے واقف ہوتے ہیں۔ یہ اخبارات اور سیاسی کرداروں کیلئے قیمتی ہوتے ہیں۔ انکی بھرمار ہوتی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ یہ مخصوص لابی کیلئے عوام الناس کی ذہن سازی کرنا جانتے ہیں۔ یہ اقبال کو شاعر کہہ کر اختلاف کی حجت تراشنے کے قائل دکھائی دیتے ہیں اور وکالت کی ڈگری رکھنے والے بھی ان سے سیکھتے ہیں۔ یہ آنکھوں دیکھی مکھی ہنس کر نگلوادیتے ہیں یہ جھوٹ لکھ کر تردید بخوشی کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ہاں کبھی کبھی انہیں ضمیر شاید کچوکے لگاتا ہو لیکن مراعات کا بوجھ انہیں ” راہِ بے راہ روی” کی جانب بھٹکنے نہیں دیتا۔ ہم جیسے طالبعلم بھی ان کی “خوبیوں” سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ یہ کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ دانشور اثاثہ کہلاتے ہیں۔ یہ عیش کی زندگی جی کر مر جاتے ہیں۔ انکی شان میں غالب صاحب نے لکھا تھا۔۔

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

ایک وہ لکھاری ہوتے ہیں جو قدیم مذہبی روایات و نظریات کے محافظ ہوتے ہیں۔ یہ کم پائے جاتے ہیں۔ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ انکے دلائل ایسے ٹھوس ہوتے ہیں کہ اکثریتی لکھاریوں کے سالہا سال کی محنت پر پانی پھیرنے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ انکے سروں پر مسلسل under observation کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ یہ بے باک انداز میں سچ بات کہہ دینے کی جرات رکھتے ہیں۔ انکی بے باکی انہیں ناقابل اشاعت قرار دیتی ہے۔ یہ اپنے جریدے رسائل شائع کرتے ہیں۔لکھنے سے پہلے سخن کو حق کے ترازو میں تول کر ڈٹ جاتے ہیں۔ جو بعد میں اکثر جبری بند کردیئے جاتے ہیں۔ انکے متبادل نہیں ہوتے۔ یہ زمانے کے بہاو کے مخالف چلتے ہیں۔ یہ اُن کی من گھڑت دلیلوں کا عقلی جواب رکھتے ہیں جن کی وکالت حال ہی میں ایک وفاقی وزیر نے اپنی پریس کانفرنس میں کی۔ انہیں شدت پسند کہہ کر اچک لیا جاتا ہے مار دیا جاتا ہے. ۔ اقبال کو اپنا مرشد اور اُنکے کلام کو پاک دل کا مقدس مسودہ کہتے ہیں۔ یہ کسی طور جھکتے نہیں ۔ مار دیئے جاتے ہیں۔ یہ تحریر کا مواد بُنتے نہیں بس جو قران و حدیث نے کہہ دیا من و عن لکھ دیا۔ انکی دلیل کا جواب گولی کے علاوہ ممکن نہیں۔ ان پر عرصہ ءِ حیات تنگ کیا جاتا ہے۔ یہ بے وقوف اور دماغی مریض کہلائے جاتے ہیں۔ یہ زندگی بھر مضطرب رہ کر بالآخر اطمینان کی موت مرتے ہیں۔ انہی کیلئے کسی انہی جیسے نے کہا تھا۔۔جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے۔۔اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا۔۔۔(شکیل بازغ)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں