تحریر: کامران شیخ
ستائیس اگست منگل کے روز شام کوریسکیو سروس کےذریعےاطلاع ملی کہ سلطان آباد،پی آئی ڈی سی پل کےقریب واقع نجی اسکول کے سوئمنگ پول میں ڈوب کر11 سالہ بچہ عثمان جاں بحق ہوگیا۔۔اس اطلاع کےبعدمیڈیاکی دوڑیں لگیں،بریکنگ ڈبےگھومے، اورابتدائی خبرچل گئی، لیکن جب معلوم ہواکہ معاملہ کراچی کےایک ایسےنامورپرائیویٹ اسکول کاہےجسکےمالکان (پارٹی) ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ نجی کمپنیوں سےبراہ راست وابستہ ہیں، تومزید فالو اپ بندہوگیایاپھرکم ہوگیا۔۔
لیکن جنکا لخت جگردنیاسےگیا وہ کیسےخاموش رھ سکتےتھے، والدین پہلےتوصدمےکےعالم میں رہےپھراسکول انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کرانےجیکسن تھانےگئے، اس ہی دوران ڈائیریکٹریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنزکوبھی اطلاع مل چکی تھی اورڈی جی کی جانب سےایک بیان جاری ہواکہ کل اسکول میں انکوائری کمیٹی جائیگی اورمعاملےکی تحقیقات ہونگی ، پولیس نےقتل خطاء کے تحت مقدمہ تودرج لیالیکن دیگر واقعات کی طرح یہاں بھی روایتی سستی نظرآئی، حیرت انگیز بات یہ ہےکہ ریسکیو کاادارہ اس واقعے کو 6 بج کر10 منٹ پررپورٹ کررہاہے لیکن اسکول میں فزیکل ایجو کیشن کی کلاس کے اوقات کار (جوکہ انتظامیہ نےبذریعہ ڈائری بچوں کولکھوائے)
وہ 11بج کر30 منٹ سے سوا بارہ بجےاوردوسرا پیریڈ 12 بج کر 15 منٹ سے دوپہرایک بجے یعنی 45 منٹس کے دو پیریڈ ہیں اوراسکول کی چھٹی کا وقت ساڑھےتین بجےہے سوئمنگ کاوقت شروع ہوا اور عثمان بھی دیگربچوں کےہمراہ کلاس لینےپہنچا اورباری آنے پرغوطہ لگا یا اور یہ اسکاآخری غوطہ ثابت ہوا وہاں موجود انسٹرکٹرزنےکلاس ختم کی اوردیگرکاموں میں مصروف ہوگئےلاعلمی اورغفلت کاعالم تویہ ہےکہ اسکول انتظامیہ کویہ تک معلوم نہ ہوسکا کہ ابھی ننھا عثمان پانی کےاندر ہی موجودہے۔۔
یہ بات اس وقت معلوم ہوئی جب ڈرائیور، عثمان کولینےآیا اور اسکی تلاش شروع ہوئی بوکھلائی ہوئی اسکول انتظامیہ نےدیکھاکہ وہ پانی کےاندر ڈوباہواہے۔اسےایک نجی اسپتال شفٹ کیا لیکن اسکی سانسیں رک چکی تھیں اوراسکول انتظامیہ نے پہلے والدہ اورپھران سے نمبرلیکر والد کوفون کیا اور کہاکہ آپ کےبچےکی طبیعیت “کچھ” خراب ہے۔ یہ سنتےہی جب والد پہنچےتومعلوم ہواکہ انکالخت جگربہت دور جا چکاہے ڈاکٹرزکےمطابق وہ یہاں مردہ حالت میں لایاگیاتھا والد کے پیروں تلےزمین نکل گئی اور وہ انصاف کامطالبہ کرتےرہےاسکول انتظامیہ نےاپنی غفلت ماننے سے انکارکردیااگلےروزڈائیریکٹریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنزسندھ کی ٹیم حبیب اسکول پہنچی ایک گھنٹہ چالیس منٹ تک پرنسپل آفس میں گفتگوہوئی ٹیم نےسوئمنگ پول کامعائنہ کیا اورباہرآکرمیڈیانمائیندگان کوکہا کہ انکوائری کمیٹی بنادی گئی ہےلیکن کسی کوذمہ دارنہیں ٹھہرایاگیا، والدذیشان اور لواحقین انصاف کےمنتظر رہے اسکول ڈائیریکٹوریٹ نےایک روایتی سرکلرنکالا اورتمام نجی اسکول کےسوئمنگ پول پر پابندی عائدکردی گئی اور تفصیلات بھی مانگی گئیں لیکن جب ڈائیریکٹوریٹ کی انکوائری ٹیم کی رپورٹ سامنےآئی تو اس میں اسکول انتظامیہ کوواضح طورپرقصوروارقراردیاگیا لیکن دوسری جانب دوانسٹرکٹرکو پولیس نےگرفتارتوکرلیامگر تفتیشی افسران ریمانڈ میں توسیع کی بجائے( JC ) کیےجانے کےحق میں رہے، کیونکہ جےسی ہوجانےکےبعد ضمانت لی جاسکتی ہے اور پولیس ریمانڈ کےدوران ضمانت نہیں ہوسکتی۔ لواحقین و اہل محلہ نےکراچی پریس کلب کے باہراحتجاجی مظاہرہ کیااور اسکول مالکان کوگرفتار کرنے کامطالبہ کیا
قابل غوربات یہ ہےکہ ابھی تک غفلت کےمرتکب بااثراسکول مالکان نہ توپولیس کےسامنے پیش ہوئےاورنہ ہی انکےخلاف کوئی کاروائی ہوئی۔معمولی جھگڑوں پرگھروں میں داخل ہوکرگرفتارکرنیوالی پولیس کا عالم یہ ہےکہ بااثرمالکان، اسکول پرنسپل کےبیان لینےکےلیے انھیں تھانےطلب کرنےکی بجائے ابتک اس بات کےمنتظرہیں کہ انکی تھانےمیں تشریف آوری ہواور بیانات لکھےجائیں جبکہ یہ بھی یاد رہےکہ مجرمانہ غفلت کے مرتکب اس میں ادارےکےاعلی افسران بھی ہیں
والدین نےپریس کانفرنس بھی کی والدہ توشدت غم سےبات ہی نہ کرسکیں والدنےبتایاکہ تاحال انھیں سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج نہیں دکھائی گئی اتظامیہ معاملےکودبارہی ہے پولیس انکاساتھ دےرہی ہے، بےبس والدذیشان نےپولیس کی تفتیش پرعدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ انکالخت جگر اسکول میں تیراکی سیکھنے کے مرحلےمیں تھا اورسکھانےوالوں کےفرائض میں شامل ہےکہ سیکھنے والے بچوں کادھیان بھی رکھا جائے، والدین کواپنی جان کابھی خطرہ ہےجسکاانکشاف انھوں نے پریس کانفرنس میں کیا اور سیکورٹی دینےکامطالبہ کیا
اس کیس کودیکھےوالےوکیل بیرسٹراخترحسین جبار کاکہنا ہےکہ عدالت میں اسکول انتظامیہ نےوکیل نہیں بلکہ وکلاء پینل کوبھیجا، 6 وکلاء کاانداز کچھ یوں تھا کہ مجسٹریٹ کودبانےکی کوشش کی گئی لیکن وہ نہ دبے
اہم بات یہ بھی ہےکہ اسکول میں سوئمنگ پول توموجود ہے لیکن اسکی گہرائی اورچوڑائی سےمتعلق تفصیل وہاں نہیں لکھی گئی۔بین الاقوامی قوانین اور ایس اوپی کےمطابق لمبائی، گہرائی اورچوڑائی لکھا جانا ضروری ہےایک اندازےکےمطابق تقریبا12 فٹ گہرائی میں یہ سوئمنگ پول بنایاگیاہے جوکہ 11 سالہ عثمان کےقدسے8 فٹ زیادہ ہی رہاہوگا
والدین کےپوسٹ مارٹم سےانکار کےبعدعثمان کی تدفین کردی گئی تھی لیکن ڈاکٹرزکی ابتدائی رپورٹ کےمطابق پول میں اترنےکےبعدبچےکی ناک سے پانی دماغ میں داخل ہوااور اسکی سانس رک گئی، یقینا عثمان نےاپنےدوستوں اور انسٹرکٹرکوپکاراہوگا ہاتھ پیر چلائےہونگےجوکہ مجرمانہ غفلت کامنہ بولتاثبوت ہے۔۔فیسوں میں اضافےاوردیگر معاملات پررجسٹریشن ختم کردینےوالےنجی اسکولوں کی مانیٹرنگ اتھارٹی بھی محض ایک رپورٹ اورتمام اسکولوں میں سوئمنگ پول بندکرنےکا نوٹس دیکرخاموش ہے۔۔
یوں محسوس ہوتاہےکہ حبیب پبلک اسکول اس قدر بااثر شخصیات کاہےکہ جس پرہاتھ ڈالنےسے20 گریڈکےافسران کی نوکری بھی جاسکتی ہے اور تبادلہ بھی کیاجاسکتاہے شاید اسی لیےپولیس بھی بہت ہی محتاط اندازمیں تفتیش کررہی ہےجس میں صرف یہ سوچا جارہاہےکہ اسکول کو کسطرح بےقصورقراردلواکرذمہ دار بچے کوہی ٹھہرادیاجائے؟؟
عثمان کےوالدذیشان درانی ایک فیصدبھی اس تفتیش سے مطمئن نہیں ہیں انھوں نے جےآئی ٹی بنانےکامطالبہ کیاہے
پاکستان تحریک انصاف کے تین رکن صوبائی اسمبلی شہزاد قریشی، خرم شیرزمان، اور بلال عبدالغفار کاکہناہےکہ جب تک چیف جسٹس اس معاملے پر نوٹس نہیں لیتےاس وقت تک کچھ نہیں ہونےوالا۔۔۔۔۔
سوال یہ ہےکہ کیااس غفلت کے مرتکب افرادکےخلاف کوئی کاروائی ہوسکےگی؟
کیابااثراسکول مالکان عدالتوں میں پیش ہونگے؟؟یا یہ بھی ننھی کلی نشواکی طرح ابتدائی شورہوگا، دارلصحت اسپتال کی غفلت ثابت ہونےکےبعد، والدین کی سسکیوں،آہوں اور میڈیا کےشورکے بعد سیل تو کیا جائیگامگرکچھ عرصے بعدہی کھول لیاجائیگا؟(کامران شیخ)