تحریر: محمود بھٹی۔۔
کئی دہائیاں بیت گئیں پیرس جاکر معمولی مزدوری کرکے فیشن بزنس سے جڑنا آج بھی ایک خواب لگتا ہے جو میں نے دورانِ نیند نہیں دیکھا بلکہ جاگتے جاگتے جیا،نہ ہونے سے بہت کچھ پانے کا سفر بالکل بھی آسان نہ تھا، والدین کی دعائوں،محنت اور سچی لگن نے جس جگہ پہنچا دیا اس کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے، جدید طرز زندگی اپنانے کے باوجود پاکستان سے تعلق ایک لمحہ کے لیے منقطع نہیں ہوا۔جو پاکستانی بھی بیرون ملک آتے ہیں بیشتر کا پاکستانی سافٹ ویئر مجموعی طور پر تبدیل ہو جاتا ہے، غیر ملکی قاعدے میں آکر ان کی بےقاعدگیاں قاعدے میں آجاتی ہیں اور ایسا لگنے لگتا ہے کہ شاید ساری دنیا باقاعدگی سے اسی قاعدے کے تحت چلے گی، بیشتر اوور سیز پاکستانیوں کا ایک ہی مسئلہ ہے ،جب پاکستان میں ہوتے ہیں تو روزگار کے لئے بیرون ملک جانے کو لپکتے ہیں اور جب وہاں پہنچ جاتے ہیں، کامیاب ہوجاتے ہیں تو وطن کی مٹی کو پکارتے اوریاد کرکے روتے ہیں، بے وطنی کے غم میں مبتلا ہوکر کہتے ہیں لاہور یاد آتا ہے، کراچی خون میں دوڑتا ہے، گوجرانوالہ کی بود و باش تڑپاتی ہے، وطن سے محبت کی آڑ میں متعدد پاکستانی پاکستان آکر کوئی نہ کوئی کاروبار شروع کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں، کچھ جزوی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اور کچھ دھوکہ دہی کے چنگل میں پھنس کر سب کچھ کھو دیتے ہیں،اوورسیز پاکستانیوں کا سب سے بڑا اورمشترکہ مسئلہ انتہائی خوفناک صورتحال اختیار کرچکا ہےاوروہ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اراضی اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیا جاتا ہے اور ملکیت باآسانی تبدیل کرلی جاتی ہے،اس کے بعد جب متعلقہ فورم سے رجوع کیا جاتا ہے تو اس قدر تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں کہ درخواست گزار ہی مرجاتا ہے لیکن اس کے کیس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا،ماتحت عدالتیں ہوں یا اعلیٰ عدلیہ…صورتحال کم و بیش یکساں ہی ہے، تاریخ پہ تاریخ تو ایسے دی جاتی ہے جیسے ثواب کا کام ہو، بیرونِ ملک رہائش پذیر درخواست گزار لاکھوں روپے خرچ کرکے جب اپنے کیس کی سماعت پر پہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے جج صاحب رخصت پر ہیں یا تبدیل ہوگئے ہیں یا وکیل صاحب بیمار ہوگئے ہیں، کام نہ نمٹانے کے سینکڑوں تکنیکی بہانے اپنائے جاتے ہیں جو سمجھ سے باہر ہیں،ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مٹی اپنی جانب کھینچتی ہے، اسی بنا پر بھاری سرمایہ کاری کرنے پاکستان گیا لیکن کاروبار کرنے کی منظوری کے اجازت نامے کے حصول کے لیے ناک کی لکیریں تک نکلوادیں گئیں ، میرا جائز کام مکمل کرنا حرام کردیا، اتنا مایوس ہوا کہ کروڑوں روپے ڈبو کر واپس بیرون ملک واپس جانا پڑا اور بیوی بچوں سے طعنے سننا پڑے۔ یہ فلم نہیں ہڈ بیتی ہے جو ان صاحب نے انتہائی مغموم لہجے میں سنائی، وہ بولے، میں نے تو چند سو لوگوں کے لئے بلواسطہ اور کئی ہزار افرادکے لیے بلاواسطہ روزگار کا باعث بننا تھا اور وطن کی ترقی میں معمولی سا کردار ادا کرنا تھا لیکن میری کوشش کو کرپٹ ٹولے نے ناکام بنا دیا پتہ نہیں میرے ملک کا کیا بنے گا، اوور سیز کمیشن تو بنا دیا گیا لیکن مجال ہے کوئی ایسا نظام بنے جس میں اوورسیز کے ساتھ فراڈ اور ظلم و زیادتی کی شرح صفر ہو جائے اور مجرموں کو عبرت ناک سزا ملے، کیا تبصرہ کروں اس بارے اور ان جیسےمتاثرین کی حالتِ زار پر، میرا تو خود کا یہی حال ہے، دل میں موجزن نیکی اور صدقۂ جاریہ کے جذبے نے یتیم خانہ کھولنے کے لیے ابھارا،خواہش تھی کہ یتیم بچوں کو احساس کمتری سے نجات دلا کر اعلی تعلیم دلوائوں، یتیم خانہ بنانےکے لئے کسی دور دراز گائوں نہیں بلکہ لاہور شہر میں ملتان روڈ پر ایک مربع زمین خریدی لیکن ملی بھگت سے دن دہاڑے زمین کی ملکیت تبدیل کردی گئی، اور تو اور جب اس جعلی ملکیت کو منسوخ کروانے کے لئے عدالت سے رجوع کیا تو میرے خلاف 12 مقدمے بنوا دیے گئے،پنجاب بار کونسل میں اس وکیل کے خلاف بھی درخواست دے رکھی ہے، اس کا تو لائسنس منسوخ ہونا چاہئے، پیسہ لے کر جھوٹے کیس کرنے والوں کا یہ حال ہی ہونا چاہئے، کفن کو جیب نہیں لگی ہوتی سب کچھ یہاں ہی رہ جانا ہے کام صرف نیک اعمال نے ہی آنا ہے، تین کیس سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ سے خارج ہوچکے ہیں، باقی زیرسماعت ہیں، سماعت بھی اس قدر سست روی سے جاری ہے کہ کچھوا بھی ہار جائے،سب کچھ ہونے کے باوجود اوورسیز پاکستانی پاکستان کی مدد کررہے ہیں وہ قیمتی زرِمبادلہ وطن بھیجتے ہیں اور ان کے ساتھ پاکستان میں ایسا سلوک ہونا ان کے ساتھ زیادتی ہے، اگر یتیم خانہ بنانا جرم ہے تو میں یہ جرم کرتا رہوں گا، حکومت سے اپیل ہے کہ ایسا قانون اور نظام بنایا جائے جس کے تحت اوورسیز کے اثاثوں پر قبضہ کرنا اور ان کی ملکیت کو غیر قانونی طریقے سے بدلنا ناممکن ہو جائے۔(بشکریہ جنگ)