تحریر: حامد میر۔۔
یہ ایک ناکام محبت کی سچی کہانی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ہمارے دور کے ایک نامور کالم نگار اور مصنف راجہ انور صاحب ہیں جنہوں نے اپنی محبوبہ سے اس کی بے وفائی کا انتقام ایک کتاب کی صورت میں لیا۔راجہ صاحب اپنی محبوبہ کو لمبے لمبے خط لکھا کرتے تھے اور محبوبہ بھی جواب میں ویسے ہی خط لکھتی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس لاہور کی فضائوں میں جنم لینے والی یہ محبت جب افسوسناک انجام سے دوچار ہوئی تو راجہ انور نے اپنی محبوبہ کنول سے فرمائش کی کہ انہوں نے جو خط اسے لکھے وہ انہیں واپس لوٹا دیئے جائیں تاکہ وہ ان خطوط کوشائع کرکے اپنی کہانی کو آئندہ نسلوں کے لئے عبرت کی مثال بنا سکیں۔
حیرت انگیز طور پر کنول نے یہ خطوط راجہ انور کو لوٹا دیئے اور انہیں کتابی صورت میں شائع کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ یہ کتاب پچاس سال پہلے شائع ہوئی لیکن سچے کرداروں اور خوبصورت طرز بیان کی وجہ سے ایک ادبی شاہکاربن گئی اور آج بھی نوجوانوں میں بڑی مقبول ہے۔
راجہ انور بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں لیکن یہ ان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ میں نے یہ کتاب پہلی دفعہ کالج کے زمانے میں پڑھی۔ 1989ء میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے سٹوڈنٹس یونینزپرپابندی ختم کی تو پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا الیکشن ہوا۔انتخابی مہم میں اسلامی جمعیت طلبہ کے سامنے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن آکھڑی ہوئی تو جمعیت والے راجہ انور کی یہ کتاب ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ ڈھونڈ لائے اور کہنے لگے کہ یہ ہے سرخوں کے لیڈر راجہ انور کا کردار جو اپنی ایک سپورٹر سے عشق لڑاتا تھا اور جب عشق ناکام ہوگیا تو ناکامی کی اس کہانی کو کتاب میں شائع کردیا۔یہ کتاب 1973ء کی کہانی تھی اور سچی بات ہے کہ 1989ء میں جمعیت کے مقابلے پر الیکشن لڑنے والوں کے لئے اس کتاب نے بڑے مسائل پیدا کردیئے۔ میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں فائنل ایئر کا طالب علم تھا۔جمعیت کے صدارتی امیدوار جہانگیر خان میرے کلاس فیلو تھے لیکن میں پی ایس ایف کےصدارتی امیدوار میر شاہجہان کھیتران کو سپورٹ کر رہا تھا جن کا تعلق بلوچستان سے تھا۔
نائب صدر کی امیدوار نائلہ قادری بلوچ کا تعلق بھی بلوچستان سےتھا اور وہ شادی شدہ تھیں۔ ان کے خاوند مصطفیٰ صاحب ہمارے دوست تھے اور ان کی وجہ سے نائلہ کے خلاف جمعیت کا پراپیگنڈہ کارگر ثابت نہ ہوا لیکن جنہوں نے یہ کتاب نہیںپڑھی تھی ان کایہی خیال تھا کہ ترقی پسندوں کے اکثرلیڈر راجہ انور کی طرح لڑکیوں کو بے وقوف بنانے کیلئے انقلابی تقریریں کرتے ہیں اور پھر انہیں بلیک میل کرنے کیلئے ان کے محبت نامے دنیا کےسامنے لے آتے ہیں۔بہرحال ہم نے ریگل چوک لاہور میں آغا امیر حسین کی بک شاپ سے ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ کے کئی نسخے خریدے۔ان پر نشانات لگائے اور ہمارے ساتھی کئی دن تک یہ کتاب لئے اپنی وضاحتیں کرتے پھرے۔
ہمارے ساتھیوں کی پہلی وضاحت یہ ہوتی کہ راجہ انور کا تعلق پی ایس ایف سے نہیں بلکہ این ایس ایف سے تھا۔
دوسری وضاحت یہ ہوتی کہ یہ کتاب دراصل ایک امیر لڑکی کی ایک غریب لڑکے سے بے وفائی کی کہانی ہے اور اس کتاب میں غریبوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ امیروں سے محبت نہ کرو۔ پھر ہم نے راجہ انور کو اعلیٰ اخلاقی قدروں کا مبلغ ثابت کرنے کیلئے کتاب میں سے کچھ جملے بلند آواز میںپڑھنے شروع کر دیئے جہاں راجہ صاحب فرما رہے ہیں کہ :’’میں آزادی کا قائل ہوں مگر چرس پینابھی کوئی آزادی ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی زہر کھائے اور کہے میں بغاوت کر رہا ہوں‘‘۔ان جملوں پر خوب تالیاں بجتیں لیکن آج میرا موضوع یہ کتاب نہیں بلکہ راجہ انور ہے۔
وہ راجہ انور جس نے اپنی ناکام محبت کی کہانی کو ایک ادبی شاہکار بنا دیا وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں افغانستان چلا گیا جہاں اس نے میر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ مل کر ایک فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کردی۔ آئین کی پامالی اور ریاستی جبر نے فلسفے کے ایک طالب علم کو عسکریت پسند بنادیا۔
الذوالفقار کی حکمت عملی پر راجہ انور کا میر مرتضیٰ بھٹو سے اختلاف ہوگیا تو انہوں نے راجہ انور کو کابل کی پل چرخی جیل میں بند کرا دیا۔ جب پی آئی اے کا طیارہ ہائی جیک ہونے کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو کابل سےدمشق منتقل ہوگئے تو راجہ انور کو جیل سے رہائی ملی اور وہ جرمنی چلےگئے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں حکومت میں وہ واپس پاکستان آئے اور جب ان کے پرانے دوست پرویز رشید نے نواز شریف میں ایک انقلابی تلاش کیا تو راجہ انور بھی اپنے پرانے دوست کے پیچھے پیچھے مسلم لیگ (ن) میں چلے گئے۔
عرض یہ کرنا تھا کہ جس طرح ریاستی جبر نے راجہ انور کو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانےپر مجبور کیا اسی طرح 1989ء میں پنجاب یونیورسٹی میں الیکشن لڑنے والی نائلہ قادری بلوچ بھی مشرف دور میں ریاست کی باغی بن گئی۔ مشرف دور میں نائلہ قادری بی این پی مینگل کا حصہ تھی۔ ایک دن اس کے خاوند کو لاپتہ کردیا گیا۔خاوند کے لاپتہ ہونے کے بعد اسے جن حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑا ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پاکستان سے بھاگ کر کینیڈا پہنچ گئی اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کا حصہ بن گئی۔ اسی زمانے میں لال مسجد اسلام آباد میں آپریشن ہوا اور اس آپریشن کا ردعمل تحریک طالبان پاکستان کے قیام کی صورت میں سامنے آیا۔
اس تنظیم نے افغانستان کے راستے سے پاکستان میں وہی کام شروع کئے جو کسی زمانے میں الذوالفقار کیا کرتی تھی۔الذوالفقار کے بانی مرتضیٰ بھٹو بھی آخر میں پاکستان واپس آئے۔ انہوں نے مقدمات کا سامنا کیا اور انتخابی سیاست کی طرف واپس لوٹے۔ پچھلے چند سال کے دوران ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسندوں کوبھی ڈائیلاگ کے ذریعہ قومی دھارے میں واپس لانے کیلئےکوششوں کا آغاز ہوا لیکن کامیابی نہ ہوسکی اور اب یہ دونوں ریاست مخالف قوتیں مل کر الذوالفقار کے راستے پر گامزن ہیں۔
سیاست میں تشدد اور ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کی جاسکتی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر جنرل ضیاء الحق ایک منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر نہ لٹکاتا تو کیا الذوالفقار وجود میں آتی؟
اگر جنرل پرویز مشرف ایک بزرگ بلوچ سیاستدان نواب اکبر بگٹی کے خلاف ریاستی طاقت استعمال نہ کرتا تو کیا بلوچستان میں عسکریت کی نئی لہر اٹھتی؟جو ریاست ماں بن کر اپنی شہریوں سے محبت نہ کرے اور انہیں انصاف نہ دے وہاں بغاوت تو ہوگی۔ راجہ انور خوش قسمت تھےکہ پل چرخی جیل کےقیدی بن گئے اور یہ قید ان کی سیاسی نجات کا ذریعہ بن گئی۔ ان کی ایک نہیں کئی محبتیں ناکام ہوئیں لیکن ان کی ہر ناکام محبت میں کوئی نہ کوئی سبق موجود ہے۔
ریاست کو ایک بے وفا لڑکی کا کردار ادا کرتے ہوئے مفاد پرستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ورنہ ریاست کا مقدر خونریزی بنتا ہے۔ مجھے آج بہت سے نوجوان راجہ انور کی طرح عسکریت کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔
اگر کسی پارٹی یا طبقے کوسیاست کی اجازت نہ دی گئی تو اس سے وابستہ نوجوانوں کو عسکریت کا راستہ اختیار کرنے سے نہیں روکا جاسکتا اوراسی لئے میں بار بار فیئر اینڈ فری الیکشن کو پاکستان کے کئی مسائل کاحل قرار دیتا ہوں۔ فیئر اینڈ فری الیکشن کی امید کا خاتمہ پاکستان میں عسکریت کو فروغ دے گا۔ بہت سے راجہ انور افغانستان چلے جائیں گے۔ ایک راجہ انور شریف شہری بن کر واپس آگیا لیکن باقی راجہ انور مرنے مارنے پر اتر آئیں گے۔(بشکریہ جنگ)۔۔