تحریر: جاوید چودھری۔۔
وہ مصور 24ویں منزل سے گر کر مر جاتا اگر عین اس وقت اجنبی آگے نہ بڑھتا اور اس کی تصویر خراب نہ کر دیتا۔ہم لوگ اکثر اپنی برسوں کی محنت اکارت ہونے پر افسردہ ہو جاتے ہیں‘ ہم ناکامیوں‘ بار بار کوشش کے بعد ناکامیوں اور اپنی بدنصیبیوں کا شکوہ کرتے ہیں۔ مجھے چند دن قبل لاہور کی ایک خاتون نے فون کر کے پوچھا ’’اللہ تعالیٰ جوان لوگوں کی جان کیوں لیتا ہے؟‘‘۔
اس کے سوال میں دکھ چھپا تھا‘ اس کا جوان بھائی موٹروے پر حادثے کا شکار ہو گیا تھا‘ یہ شخص پرہیزگار بھی تھا‘ محنتی بھی‘ شریف بھی اور پڑھا لکھا بھی لیکن ایک دن فیکٹری سے واپس آتے ہوئے اس کی گاڑی موٹر وے پر ٹرالر سے ٹکرا گئی اور یہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ اس حادثے نے پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا‘ خاتون نے مجھے فون کر کے پوچھا ’’اللہ تعالیٰ جوان لوگوں کی جان کیوں لیتا ہے‘‘۔میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا‘ میرے ایک دوست انتہائی شریف‘ مخلص‘ محنتی اور دیانت دار ہیں لیکن پچھلے سال ان کا سارا کاروبار تباہ ہو گیا اور آج یہ پیسے پیسے کے محتاج ہیں ‘یہ بھی اپنی تباہی کی وجہ تلاش کر رہے ہیں لیکن انھیں بھی جواب نہیں مل رہا۔ راولپنڈی کے ایک صاحب کو اللہ تعالیٰ نے سات بیٹیوں کے بعد اولاد نرینہ عطا کی‘ یہ لوگ بہت خوش تھے لیکن پھر یہ بچہ چار سال کی عمر میں گٹر میں گر کر ہلاک ہو گیا‘ بچے کے والد نے مجھ سے پوچھا ’’آخر ہمارا کیا قصور تھا‘ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ بچہ واپس ہی لینا تھا تو پھر اس نے ہمیں یہ نعمت دی کیوں تھی‘‘ میرے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔
میں ایک ایسے طالب علم کو بھی جانتا ہوں جو بے انتہا ذہین ہے‘ جو دن رات پڑھتا ہے اور استاد اس کی ذہانت اور عقل کی قسمیں کھاتے ہیں‘ یہ امتحان بھی اچھا دیتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کبھی ٹاپ نہیں کر سکا۔ یہ‘ اس کے استاد اور اس کے دوست احباب ہمیشہ اس پر حیران ہوتے ہیں اور آپ 2010 کے سیلاب کی مثال بھی لے لیجیے‘ یہ سیلاب کتنے لوگوں کی فصلیں‘ مکان‘ فیکٹریاں‘ گودام اور دکانیں بہا لے گیاتھا اور ان لوگوں نے ان دکانوں‘ گوداموں‘ فیکٹریوں‘ مکانوں اور فصلوں پر کتنی دہائیاں صرف کی ہوں گی‘ انھوں نے کتنی محنت کی ہو گی اور یہ بھی اب پوچھتے ہوں گے ’’ہمارا کیا قصور تھا اور قدرت کو ہمیں تباہ کر کے کیا ملا‘‘۔
یہ سوال اس مصور کے ذہن میں بھی آیا ہو گا جس نے 24ویں منزل پر کھڑے ہو کر سال بھر میں شاہکار تخلیق کیا‘ یہ شاہکار جب مکمل ہو گیا تو وہ اسے دور سے دیکھنے کے لیے آہستہ آہستہ الٹے قدم چلنے لگا‘ وہ اپنے شاہکار کی خوب صورتی اور اپنی تخلیق کے خمار میں اس قدر محو تھا کہ وہ یہ بھول ہی گیا وہ چوبیس منزل کی بلندی پر ایک ایسے پلیٹ فارم پر کھڑا ہے جس کے دائیں بائیں اور پیچھے کوئی ریلنگ نہیں‘ وہ اس پلیٹ فارم پر آہستہ آہستہ الٹے قدم چل رہا تھا‘ نیچے درجنوں لوگ کھڑے تھے‘ وہ الٹے قدم چلتا ہوا آخری سرے پر پہنچ گیا اور اب ایک قدم اٹھانے کی دیر تھی اور وہ 24ویںمنزل سے نیچے آ گرتا۔
مجمع سانس روک کر دیکھ رہا تھا‘ یہ لوگ اسے آواز دے کر خطرے سے مطلع کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں خطرہ تھا کہیں ان کی آواز سن کر مصور گھبرا نہ جائے اور گھبراہٹ میں وہ آخری قدم بھی نہ اٹھا لے اور یوں ملک ایک شان دار مصور سے محروم ہو جائے چناںچہ لوگ سانس روک کر کھڑے تھے اور مصور موت سے ایک قدم کے فاصلے پر کھڑا ہو کر اپنی تصویر دیکھ رہا تھا‘ اچانک کسی طرف سے ایک شخص آیا‘ وہ پلیٹ فارم پر چڑھا‘ اس نے بڑا سا برش اٹھایا‘ برش رنگ کے ڈبے میں ڈبویا اور اس کی تصویر پر پھیرنا شروع کر دیا۔اس شخص نے چند سیکنڈ میں مصور کی ساری تصویر برباد کر دی‘ مصور کے تن بدن میں آگ لگ گئی‘ وہ تیزی سے تصویر کی طرف بھاگا‘ اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ شخص تیزی سے تصویر خراب کرنے لگا‘ مصور اس کے قریب پہنچا تو اس شخص نے برش نیچے رکھا اور دوڑ لگا دی‘ مصور اس کے پیچھے بھاگا‘ وہ دونوں بھاگتے بھاگتے نیچے آئے‘ اجنبی مجمعے میں گھسا اور غائب ہوگیا۔ مصور اسے تلاش کرتا رہا‘ تلاش کرتے کرتے تھک گیا تو فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور دور سے اپنی تصویر دیکھنے لگا‘ اس کی تصویر برباد ہو چکی تھی‘ اس نے سر پر ہاتھ رکھے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘ لوگ اس کے گرد جمع ہوتے چلے گئے۔وہ روتے روتے تھک گیا تو لوگوں نے اسے بتایا یہ شخص جسے تم اپنا دشمن سمجھ رہے ہو وہ تمہارا سب سے بڑا محسن ہے‘ اس نے تمہیں مرنے سے بچا لیا‘ اس نے حیران ہو کر اوپر دیکھا‘ لوگوں نے اسے وہ پلیٹ فارم دکھایا جس کے آخری سرے پر وہ کھڑا تھا اور موت اس سے صرف ایک قدم پر تھی‘ لوگوں نے اسے بتایا اگر عین وقت پر وہ اجنبی نہ آتا‘ وہ اس کی تصویر پر برش نہ پھیرتا‘ اس کو اس پر غصہ نہ آتا اور وہ غصے سے اس کی طرف نہ دوڑتا تو وہ اب تک مر چکا ہوتا۔ مصور نے پلیٹ فارم کو دیکھا۔
اپنی برباد شدہ تصویر کی طرف دیکھا‘ آسمان پر نگاہ ڈالی اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا‘ مصور کا خیال تھا وہ زندگی میں ایسی سیکڑوں تصویریں بنا سکتا ہے لیکن زندگی اسے دوبارہ نہیں مل سکتی۔ اس نے دل ہی دل میں اس اجنبی کا شکریہ بھی ادا کیا جس نے اسے اس وقت بچا لیا جب وہ اپنی زندگی کا آخری قدم اٹھا رہا تھا۔
ہم سب اس مصور کی طرح ہیں‘ ہم اپنی اپنی زندگی میں آخری قدم پر کھڑے ہوتے ہیں اور ہمارے اور موت کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا بس ایک قدم اٹھانے کی دیر ہوتی ہے اور ہم فارغ‘ اس وقت اللہ تعالیٰ کو ہم پر رحم آ جاتا ہے‘ کوئی فرشتہ کسی طرف سے آتا ہے اور ہماری تصویر پربرش پھیرنا شروع کر دیتا ہے‘ وہ ہماری برسوں کی ریاضت پر پانی پھیر دیتا ہے‘ ہم اپنے سامنے اپنی متاع‘ اپنی کمائی اور اپنی محنت کو ضایع ہوتے دیکھتے ہیں‘ اس وقت ہم قدرت کو اپنا دشمن بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ظالم بھی۔
ہم اس لمحے خود کو دنیا کا بدنصیب ترین انسان بھی گردان رہے ہوتے ہیں لیکن اصل میں ہماری وہ ناکامی‘ ہماری وہ نامرادی اور ہماری وہ بدنصیبی وقتی ہوتی ہے‘ یہ ہمیں اس مصور کی طرح آخری قدم سے واپس لے جاتی ہے اور ہم بہت بڑے نقصان سے بچ جاتے ہیں۔ یہ حادثے‘ یہ نقصان اور یہ ناکامیاں ہم اور ہمارے خاندان کے راستے بھی تبدیل کرتی ہیں‘ میرے ایک جاننے والے کا اچانک انتقال ہو گیا‘ وہ زندہ تھا تو اس کا سارا خاندان آپس میں لڑتا رہتاتھا‘ اس کے تین بیٹے تھے‘ وہ تینوں نالائق‘ سست اور کام چور تھے‘ والد کماتا تھا اور سارا خاندان کھاتا تھا‘ ایک دن والد کا انتقال ہو گیا۔
چند دن بعد سارے خاندان کی ہئیت تبدیل ہو گئی‘ تمام افراد ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے رہنے لگے‘ دو بڑے بیٹوں نے کام شروع کر دیا اور دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگے‘ تیسرے بیٹے نے پڑھائی پر توجہ دی اور تیزی سے آگے نکلتا چلا گیا اور مرحوم کی بیگم خاوند کی زندگی میں محض ’’ہائوس وائف‘‘ تھی لیکن اس نے بھی بیٹوں کے ساتھ فیکٹری جانا شروع کر دیا اور چند ماہ میں ٹھیک ٹھاک بزنس وومن بن گئی‘ آپ خود اندازا لگایے ایک شخص جو اس پورے خاندان کا نیوکلیئس تھا‘ اس کے جانے سے کتنے لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہو گئیں۔
میں خود سائنس کا طالب علم تھا‘ میں نے جی بھر کر رٹے لگائے لیکن ایف ایس سی میں فیل ہو گیا۔مجبوری کے عالم میں آرٹس کی طرف گیا اور پوزیشنیں حاصل کرنا شروع کر دیں‘ اسی طرح میں نے ایل ایل بی کے لیے لاء کالج میں داخلہ لے لیا‘ میں پہلے سال ہی فیل ہوگیا‘ یہ ناکامی مجھے صحافت کی طرف لے آئی‘ میں نے صحافت میں ایم اے کیا‘ یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی‘ اخبار کی نوکری شروع ہوئی تو میں صحافت کے مختلف شعبوں میں بھی ناکام ہوتا رہا یہاں تک کہ کالم نگاری میں آ گیا اور چل نکلا۔ میں آج واپس مڑ کر دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے میں بھی کئی بار اس مصور کی طرح آخری قدم پر کھڑا تھا اور اگر اس وقت کوئی شخص میری تصویر خراب نہ کرتا تو میں بھی 24ویں منزل سے نیچے گر گیا ہوتا۔مجھے میری ناکامیاں آہستہ آہستہ گھسیٹ کر صحافت میں لے آئی تھیں اور صحافت نے مجھے کالم نگاری میں دھکیل دیا جو دراصل میری فیلڈ تھی۔ میں اگر ماضی کی ناکامیوں سے سبق نہ سیکھتا‘ میں مسلسل سائنس کی چٹان کے ساتھ ٹکریں مارتا رہتا یا پھر ان فیلڈز کے ساتھ الجھتا رہتا جو میرا اصل راستہ نہیں تھیں تو میرا کیا بنتا؟میں یقینا آج بیمار‘ چڑچڑا اور اندر سے زخمی بھی ہوتا اور زندگی کا شاقی بھی لیکن اللہ نے کرم کیا‘ میری تصویر بار بار خراب ہوتی رہی یہاں تک کہ میں چوبیس منزل اونچے پلیٹ فارم سے نیچے آ گیا۔
زندگی کے غم‘ زندگی کے مسائل اور ہماری زندگی کی ناکامیاں دراصل وہ دھوپ ہوتی ہیں جن کے بغیر زندگی کے آم میں رس نہیں آتا‘ جن کے بغیر زندگی کا تربوز اندر سے سرخ نہیں ہوتا اور جن کے بغیر ہماری ہڈیوں میں تحریک اور طاقت پیدا نہیں ہوتی لیکن ہم لوگ اکثر ان ناکامیوں کے بعد ہمت ہار جاتے ہیں اور اس قدرت کی شکایت شروع کر دیتے ہیں جو اگر عین وقت ہماری تصویر خراب کرنے کے لیے کسی اجنبی کو نہ بھجوائے تو ہم 24ویں منزل سے نیچے گر جائیں اور ہماری ہڈیاں تک زمین میں خاک کی طرح مل جائیں۔ہمارے منصوبوں اور ہماری کوششوں کی تصویریں خراب ہو رہی ہیں اسی لیے تو ہم زمین پر کھڑے ہیں‘ اسی لیے تو ہم زندہ ہیں اور اسی لیے تو ہم آگے بڑھ رہے ہیں‘ یہ تو اللہ کا کرم ہے جسے ہم اس کا عذاب سمجھ رہے ہیں۔۔ (بشکریہ ایکسپریس)۔۔