تحریر: جاوید چودھری۔۔
استاد اسے کند ذہن اور شرارتی سمجھتے تھے جب کہ اسے سلیبس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔چھ سال کی عمر میں اس نے ناکامی کا پہلا مزا چکھا اور یہ اس کی عملی زندگی کا آغاز تھا‘ اس کا والد لکڑی کا کام کرتا تھا‘ چھ سال کے بچے نے لکڑی کے اس ذخیرے کو آگ لگا دی‘ وہ دیکھنا چاہتا تھا لکڑی کو آگ لگے تو کیا ہوتا ہے؟ والد کی لکڑی جل کر کوئلہ ہو گئی اور والد نے اس شان دار ’’کام یابی‘‘ پر پورے گاؤں کے سامنے اس کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کی‘ بچے نے مار کھا لی لیکن وہ تجربوں سے باز نہ آیا‘ اس کا دوسرا تجربہ انڈوں سے انسان کے بچے نکالنا تھا‘ وہ سوچتا تھا مرغی انڈوں پر بیٹھتی ہے تو ان سے چوزے نکلتے ہیں اگر ان پر انسان بیٹھے تو کیا نکلے گا؟ وہ یہ جاننے کے لیے ایک دن ہنس کے انڈوں پر بیٹھ گیا۔
انڈے ٹوٹ گئے اور اس کی پتلون خراب ہو گئی‘ ناکامی پر ایک بار پھر مار پڑی‘ اس کا تیسرا تجربہ پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا تھا‘ وہ سمجھتاتھا پرندے کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں‘ کیڑے مکوڑوں میں کوئی ایسی تاثیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ ہوا میں اڑ لیتے ہیں‘ اس نے کیڑے مکوڑے جمع کیے‘ ان کا جوس نکالا اور یہ جوس اپنی نوکرانی کو پلا دیا‘ نوکرانی کے پیٹ میں درد ہونے لگا اور وہ فرش پر لیٹ کر تڑپنے لگی‘ نتیجہ اس بار بھی پٹائی کی شکل میں نکلا لیکن وہ باز نہ آیا‘ اس نے ناکامیوں کو اپنی طاقت بنا لیا اوروہ آنے والے دنوں میں اس طاقت کے ذریعے دنیا کا سب سے بڑا موجد بن گیا‘ اس نے دنیا کی شکل بدل دی۔
یہ ایڈیسن تھا‘ تھامس ایڈیسن دنیا کا سب سے بڑا موجد۔ ہم آج دنیا کے کسی کونے میں بھی بیٹھ جائیں اور دائیں‘ بائیں اور آگے پیچھے دیکھیں تو ہمیں وہاں ایڈیسن کی درجنوں ایجادات نظر آئیں گی‘ آج کا انسان اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا‘ یہ ہم سب آٹھ ارب لوگوں کا محسن ہے‘ کاش پاکستان کا کوئی ماہر تعلیم ایڈیسن کی بائیوگرافی ہمارے سلیبس میں شامل کر دے‘ مجھے یقین ہے ہمارے ملک میں کام یابی کی شرح بڑھ جائے گی‘ ہمارے بچے بچپن ہی سے سیکھ لیں گے اگر کوئی انسان تبدیلی لانا چاہے تو یہ اکیلا پوری دنیا کو بدل سکتا ہے‘ ہمارے بچے یہ بھی سیکھ لیں گے ناکامی‘ ناکامی نہیں ہوتی یہ کام یابی کا پہلا زینہ ہوتی ہے اور آپ اگر ناکام نہیں ہوتے تو آپ کبھی کام یاب نہیں ہو سکتے‘ ایڈیسن ایک حیران کن کردار تھا۔
استاد اسے کند ذہن اور شرارتی سمجھتے تھے جب کہ اسے سلیبس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی‘ اس کا ذہن کلاس فیلوز اور اساتذہ سے بہت آگے تھا‘ استاد اس کی حرکتوں اور سوالوں سے تنگ آ گئے اور انھوں نے اسے اسکول سے نکال دیا‘ ایڈیسن کی والدہ اسے سمجھتی تھی ‘اس نے اپنے بیٹے کو خود پڑھانا شروع کر دیا‘ وہ پندرہ سال کا ہوا تو اس نے ٹرین میں چھابڑی لگانا شروع کر دی‘ ٹرین میں اس وقت چھابڑی لگانے کی اجازت نہیں تھی لیکن وہ روز ریلوے اسٹیشن جاتا اور ریلوے حکام سے چھابڑی کی اجازت مانگتا ‘ یہ کئی مہینے چکر لگاتا رہا اور ناکام واپس آتا رہا یہاں تک کہ ریلوے حکام نے اس کی ’’ہٹ دھرمی‘‘ کے سامنے شکست مان لی‘ وہ ریل میں چھابڑی فروش ہو گیا‘ ٹرین کا چار ساڑھے چار گھنٹے کا سفر تھا۔
اس نے اس سفر کے دوران اپنا اخبار شروع کر دیا‘ وہ مختلف ریلوے اسٹیشنز سے خبریں اکٹھی کرتا ‘ وہ ہاتھ سے خبریں لکھتا ‘ ان کی پلیٹس بناتا ‘ اس نے ٹرین کے اندر ایک چھوٹا سا چھاپہ خانہ بھی بنا لیاتھا‘ یہ اس چھاپہ خانے پر اخبار چھاپتا اور ٹرین میں فروخت کر دیتا‘ یہ ایک انوکھا تجربہ تھا‘ ایڈیسن نے ریل کے ایک خالی ڈبے میں اپنی تجربہ گاہ بھی بنا لی ‘ وہ فالتو وقت اس میں تجربے کرتا رہتا تھا‘ ایک دن اس تجربہ گاہ میں دھماکا ہوا اور ڈبے میں آگ لگ گئی‘ اس ناکامی کا نتیجہ بھی پٹائی کی شکل میں نکلا لیکن وہ مایوس نہیں ہوا‘ وہ ریل کے سفر کے دوران قوت سماعت سے بھی محروم ہو گیا‘ وہ چلتی ٹرین کے پائیدان سے پھسلا لیکن نیچے گرنے سے پہلے گارڈ نے اسے کانوں سے پکڑ کر اٹھا لیا‘ وہ بچ گیا لیکن اس کی قوت سماعت پچاس فیصد رہ گئی۔
وہ چھابڑی سے فارغ ہوا تو اس نے ٹیلی گراف آفس میں نوکری کر لی‘ ان دنوں ایک وقت میں ایک ہی ٹیلی گراف آ سکتا تھی‘ ایڈیسن نے تار آفس میں کام کرتے کرتے بیک وقت کئی پیغام بھجوانے اور وصول کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا‘ یہ ایک انقلاب تھا‘ وہ تار آفس سے نکلا تو اس نے نیویارک میں ایک بڑی کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی‘ وہ کمپنی سونے کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کا فیصلہ کرتی تھی‘ ایڈیسن نے ان کے لیے کیلکولیشن کی ایک جدید مشین بنا دی اور پھر یہاں سے ایک ان پڑھ نوجوان دنیا کا سب سے بڑا موجد بننا شروع ہو گیا‘ اس نے اپنا کارخانہ لگا لیا اور اپنی تجربہ گاہ بنالی‘ اس نے اس تجربہ گاہ میں آٹو میٹک ٹیلی گراف ایجاد کیا اور اس کے لیے ایک ایسا کاغذ (پیرافین پیپر) بنایا جس پر ایک منٹ میں ساڑھے تین ہزار لفظ چھپ سکتے تھے۔
اس نے ٹائپ رائٹر کا سسٹم ٹھیک کیا‘ ٹیلی فون گراہم بیل نے ایجاد کیا تھا لیکن اس کا ریسیور ایڈیسن نے بنایا تھا‘ اس نے فون کی آواز کی کوالٹی بھی بہتر بنائی‘ ہم سب ٹیپ ریکارڈ‘ سی ڈی پلیئر اور آئی پاڈ پر میوزک سنتے ہیں‘ یہ ٹیکنالوجی گرامو فون سے اسٹارٹ ہوئی تھی اور گرامو فون ایڈیسن نے بنایا تھا‘ہم سب ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں‘ سینماؤں میں فلم بھی دیکھتے ہیں اور ہمارے کمپیوٹرز پر ایل سی ڈی بھی ہوتی ہے‘ یہ ٹیکنالوجی پروجیکٹر سے اسٹارٹ ہوئی تھی اور یہ پروجیکٹر ایڈیسن نے بنایا تھا‘ ہم ٹی وی اور سینما میں متحرک فلمیںدیکھتے ہیں‘ فلم کی یہ تکنیک بھی ایڈیسن نے ایجاد کی تھی‘ آج پوری دنیا روشن ہے‘ یہ روشنی بلب کا عطیہ ہے‘ یہ بلب بھی ایڈیسن نے ایجاد کیا تھا‘ آپ کو یورپ اور امریکا کے زیادہ تر شہروں میں ٹرام ملتی ہے‘ یہ سڑکوں پر چلنے والی ٹرین ہوتی ہے۔
یہ ٹرام بھی ایڈیسن نے بنائی تھی‘ الیکٹرک اسٹریٹ لائٹس بھی ایڈیسن نے نیویارک سٹی میں لگوائی تھیں اور یہ رجحان اس کے بعد پوری دنیا میں پہنچا‘ ہم سب عمارتوں کی تعمیر میں سیمنٹ استعمال کرتے ہیں‘ یہ سیمنٹ بھی اس کی ایجاد ہے اور سیمنٹ فیکٹری بھی۔ دنیا میں نوٹ گننے کی پہلی مشین بھی ایڈیسن نے بنائی تھی‘ زمین سے لوہا اور دوسری دھاتیں نکالنے کی تکنیک بھی اس کی ایجاد ہے‘ اس نے مشین کے ذریعے کان کنی کو بھی آسان بنا دیا ‘ چمڑا رنگنے کا جدید طریقہ بھی اسی کی ایجاد ہے‘ بحری جہازوں کو تیزی سے موڑنے اور زیر سمندرآبدوزوں کے سوراخ بھرنے کی تکنیک بھی اسی نے ایجاد کی‘ اس نے لیبارٹری میں کاربونک ایسڈ بھی بنایا اور اس نے بیٹری بھی بنائی جس کے بغیر آج کی مشینی زندگی ممکن نہیں اور اس نے امریکا میں پہلی بار ربڑ بھی اگایا‘ یہ ایڈیسن کی چند بڑی ایجاد ہیں جب کہ اس نے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی ایجادات کیں اور ان ایجادات نے دنیا کا کلچر بدل دیا۔
ایڈیسن کا کام صرف ان ایجادات تک محدود ہوتا تو شاید بڑی بات نہ ہوتی لیکن اس کا اصل کمال امید تھی‘ وہ ناکامی کو ناکامی نہیں سمجھتا تھا‘اس نے بلب ایجاد کے دوران بیس ہزار ناکام تجربے کیے لیکن وہ مایوس نہیں ہوا‘ اس نے بلب کا فلیمنٹ بنانے کے لیے بانس کی چھ ہزار اقسام پر کام کیا لیکن مایوس نہیں ہوا‘ اس نے بیٹری میں بجلی اسٹور کرنے کے لیے دس ہزار ناکام تجربے کیے لیکن وہ مایوس نہیں ہوا‘ ٹیلی گراف ہو‘ گرامو فون ہو‘ ٹیلی فون کا ریسیور ہو‘ پروجیکٹر ہو‘ سیمنٹ ہو‘ چمڑا ہو یا پھر فلم ہو اس نے ہزاروں ناکام تجربے کیے لیکن مایوس نہیں ہوا اور اس نے بالآخر کام یابی حاصل کر لی۔ وہ کہتا تھا میرے تجربے ناکام نہیں ہوتے‘ میں نے بلب بنانے کے بیس ہزار تجربے کیے لیکن میں بلب نہیں بنا سکا۔
میں نے اس سے سیکھا‘ ان بیس ہزار طریقوں سے بلب نہیں بنایا جا سکتا چناںچہ میں بلب بنانے کے اصل طریقے کے قریب پہنچ گیاہوں اورمیرا خیال درست تھا اور میں کام یاب ہو گیا‘ ایڈیسن کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش مریخ پر پیدا ہونا تھا‘ وہ کہتا تھا مریخ کا دن زمین کے دن سے چالیس منٹ بڑا ہوتاہے اور میں اگر مریخ پر پیدا ہوتا تو میں چالیس منٹ زیادہ کام کرسکتا تھا‘ وہ دن رات کام کرتا تھا اور وہ اس دوران یہ تک بھول جاتا تھا اس نے کھانا کھا لیا ہے یا پھر بھوکا ہے۔ ہم اگر اس کی کام یابیوں اور ناکامیوں کا تقابل کریں تو اس کی ناکامیوں کی شرح کئی گنا زیادہ ہو گی لیکن اس نے اپنی ہر ناکامی کو کام یابی کا زینہ بنایا اوروہ اس زینے پر چڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ آج ہم جس طرف دیکھتے ہیں ہم ایڈیسن کا شکریہ ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتے‘ ایڈیسن نے ہمیں جدید دنیا کی سیکڑوں نعمتیں دیں لیکن اس کا اصل کمال کام یابی اور ناکامی کا تصور تبدیل کرنا تھا‘ اس نے ثابت کر دیا ایک ان پڑھ‘ بہرہ اور غریب شخص مسلسل محنت سے پوری دنیا کو حیران کر سکتا ہے‘ یہ ناکامیوں کو کامیابی میں تبدیل کر سکتا ہے اور ایڈیسن نے یہ کیا۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔