تحریر : شکیل احمد بازغ
مکار سچائی کو مات دینے کا ہنر جانتا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے امانت صداقت شرافت سے کام میں مستغرق شخص کو کوئی باتوں کا ماہر نااہل ثابت کردے۔ مادی دور میں شرافت گالی اور حرامزدگی قابلیت بن چکی۔ آج کسی ذمہ دار صاحبِ علم اور اہل نظر کے بجائے مشہور ٹِک ٹاکر یا فاحشہ کو عوام میں مقبولیت کی بنا پر پرائیڈ آف پرفارمنس مل سکتا ہے۔ مادہ پرستوں کے معیارات شیطانی ہیں۔ جو کہ روحانیت کی ضد بھی ہیں اور شرافت کیلئے زہر قاتل بھی۔ گداز و ملوک دلوں کو جابرین کا رعب سہما سکتا ہے۔ فقیر گداز و صادق دل لیئے روٹی کے ٹکڑوں کو ترستا ہے جبکہ لوگوں کے زر زمین زن پہ قبضہ کرلینے والے آئین ساز اسمبلی میں دمک رہے ہوتے ہیں۔ کسی حرام خور کی لگژری گاڑی کی گرد میں سڑک کنارے حلال رزق کمانے والا چھابڑی والا گُم ہوجاتا ہے۔ لفظوں کے کھلاڑی حقائق پہ پردہ ڈال دینے والی دلآویز تحریریں لکھ کر حاکمِ وقت سے سندِ قابلیت پاسکتا ہے جبکہ سچ لکھنے والے ناقابلِ اشاعت قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ وہ بات جس میں سچ تو ہو لیکن باطل نظام ظالم حاکم کے ذاتی سیاسی و معاشی مفادات کے اصولوں سے ٹکراتی ہو وہ جھوٹ کا پلندہ ثابت کی جاسکتی ہے۔ لمبی زبان رکھنے والا وکیل قاتل کو مظلوم اور مقتول کے وارثوں کو قابلِ گرفت ثابت کرسکتا ہے۔
شور میں سسکیاں دب سکتی ہیں۔ بھیگی پلکوں کے بجائے موٹےٹسوے بہانا بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ خاموشی پر زبان درازی سبقت لے جاسکتی ہے۔ حیا کواڑ کے اندر خاموش رہ جاتی ہے اور بے حیا کواڑوں کو بے غیرتی سے بلند آواز میں پیٹ سکتا ہے۔ حیا والے کو لوگ بزدل اور بے حیا کو دلیر مان سکتے ہیں۔ جھوٹ پر مبنی اچھی تحریریں لوگوں کو مائل کرسکتی ہیں اور کڑوے سچ گلے کا پھندہ بن سکتے ہیں جھوٹا مُلا ہر ٹی وی سکرین پر دکھائی دے سکتا ہے اور اسی لمحے کسی عاشقِ صادق کو زمانہ گالی دے رہا ہوتا ہے۔
اس سب کے باوجود جو اچھا بننے کی کامیاب اداکاری کرلیتے ہیں کوئی آئندہ زمانوں کا وقت انہیں جھوٹا ثابت کردیتا ہے۔ اور حرفِ حق لکھنے والے کی صداقت کی گواھی اسکے پھندے پر جھول جانے کے صدیوں بعد تک سنائی دیتی ہے۔ مکار کسی کیلئے گڑھے کھود کر وقتی فائدہ اٹھانے کے بعد ذلالت کی گھٹا ٹوپ کھائیوں میں گر جاتا ہے۔ اور صبر والوں کے انعامات مشکلات کی پشت پر سوار ہوکر بالآخر آن پہنچتے ہیں۔ ابن الوقتی زندگی کو سہل کرسکتی ہے۔ لیکن ضمیر کی سچائی روزِ محشر سرخرو کرائے گی۔ فوری بدلہ لے لینا بہادری کہلایا جاسکتا ہے۔ لیکن معاف کردینے جیسی شجاعت کی قیمت جنت ہے۔
لوگ تیرگی میں رہ کر قلم کی سیاھی سے باطل کی تعریف و وکالت سے چند ٹکے زیادہ کمالیتےہیں لیکن حُسنِ حرف پروری میں سچائی وہ گوہر نایاب ہے جس سے چھلکتی روشنی زمانوں تک کو اجالا فراہم کرتی ہے۔ اور کاتب کی صداقت کے گُن زمانوں تک گائے جاتے ہیں۔ انسانیت اخلاقیات تہذیب آداب اور احساس کی یمت دنیا میں نہایت ہی کم ہے۔ لیکن عاقبت کی سرفرازی انہیفطری عقائد سے ممکن ہے۔ دنیاداروں کو دنیا دے دی گئی ہے اور جنتیوں کو دنیا کا نہایت ہی کم تر حصہ دیا گیا ہے۔ اللہ چاہے تو دنیا اور آخرت بندے کو عطا کردے۔ بندہ چاہے تو مکاریوں میں رہ کر اپنی دنیا و عاقبت تباہ کردے۔
سنہری حُروف میں سپرد بیش قیمت قرطاس پہ کی گئی لفاظی کافی نہیں اصل شے آڑی ترچھی سطروں میں کسی ٹوٹی دیوار پہ ننگا سچ لکھ دینا ہے۔
دنیاوی لذتیں کامیابیاں اور عیاشیاں اہم نہیں۔ نہایت اہم ہے بعداز مرگ ہمیشگی کی جنت پالینا۔ اچھا لکھنا اور ہے۔سچا لکھنا اور ہے۔(شکیل احمد بازغ)۔۔