خصوصی رپورٹ۔۔۔
سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے پی ایس ایل کو خطرے میں قرار دے دیا، ان کا کہنا ہے کہ پی سی بی عہدیدار اپنی فاش غلطیوں پر مسلسل پنکچر لگا رہے ہیں۔۔ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے کہاکہ گذشتہ 3سال سے پی سی بی کے عہدیدار اپنی فاش غلطیوں پر مسلسل پنکچر لگا رہے ہیں، اب تو ان کی گنتی کرنا مشکل ہوگیا ہے،ٹائر پھٹتے اوریہ پنکچر لگاتے جارہے ہیں،معلوم نہیں گاڑی کہاں تک چلے گی۔انہوں نے کہا کہ ایک کے بعد ایک حماقت ہوئی ہے، انھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ اور بورڈ کا آئین تباہ کردیا، پی ایس ایل کی صورتحال پرسخت مایوسی ہے،ابوظبی میں ٹورنامنٹ ہوبھی جائے پھر بھی لیگ خطرے میں ہے،فیصلے نادانی سے کیے گئے ہیں، بدانتظامی ہے، بے دردی سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی وجہ سے آئندہ کئی مسائل سامنے آئیں گے،کنٹریکٹس رکھنے والے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بھی تنازعات ہوں گے۔
سابق چیئرمین نے کہا کہ میرے دور میں بنایا جانے والا فنانشل ماڈل خراب نہیں تھا، امکان یہی تھا کہ لیگ کی پاکستان منتقلی کے ساتھ اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ ہوگا لیکن نجی سیکٹر اس سسٹم کو سمجھ نہیں سکا،ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہوا، اب اگر فرنچائزز مسلسل خسارے میں جا رہی ہیں تو ان کی بات سننے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے،اگر ایسا نہ کیا تو پی ایس ایل بیٹھ جائے گی، نیا فنانشل ماڈل لانے کی ضرورت ہے تو ایسا کرلینا چاہیے۔نجم سیٹھی نے کہا کہ بائیو ببل کیلیے سیکیورٹی اداروں کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت تھی تاکہ کوئی مالک ہو یا کھلاڑی اس میں شگاف ڈالنے کی کوشش نہ کرسکے۔ایک سوال پر انھوں نے کہ پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کے صحافیوں کے بارے میں بیان پر افسوس ہوا، میرے خیال میں وہ تھک گئے ہیں،اس ماحول میں کام نہیں کرپا رہے،جانے کی تیاری کرچکے ہیں مگر میڈیا پر بوجھ ڈال کر جانا چاہ رہے ہیں۔
دریں اثناپی سی بی کے سی ای او وسیم خان نے کہا کہ سابق چیئرمین نجم سیٹھی ہم پر پی ایس ایل برانڈ کوتباہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں مگر گذشتہ ادوار میں بنائے گئے اس 10 سالہ فنانشل ماڈل کی وجہ سے فرنچائزز ابھی تک منافع نہیں کما سکیں، ہماری اولین ترجیح اسے مزید بہتربنانا ہے، ہم ٹیم مالکان کے ساتھ مختلف فنانشل ماڈلز پرکام کررہے ہیں تاکہ ان کی آمدنی میں زیادہ اضافہ ہوسکے، موجودہ ماڈل کی وجہ سے ابھی تک ہم پی ایس ایل میں ٹیمیں بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ایک سوال پر وسیم خان نے واضح کیاکہ پی ایس ایل کو آئی پی ایل کی طرح بننے میں وقت لگے گا،دونوں لیگز میں بڑا فرق کھلاڑیوں کے معاوضوں کا ہے، بھارتی لیگ میں 2سے3 ملین ڈالرز ہر کھلاڑی کو مل رہے ہیں جس کی وجہ سے تمام بڑے نام اس میں کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں، ہم پی ایس ایل کو آگے بڑھا رہے ہیں،جب ہم بھی آئی پی ایل کی طرح زیادہ پیسہ کرکٹرز کو دینے کے قابل ہوئے تو ہماری لیگ میں بھی تمام بڑے نام آکرکھیلیں گے۔
انھوں نے کہا کہ فروری میں شیڈول پی ایس ایل 7 کو آگے لے جانا پڑے گا،آسٹریلوی ٹیم 22سال بعد پاکستان آ رہی ہے،اگر ہم اس کے لیے ونڈو خالی نہیں کرتے تو پھر فیوچر ٹورز پروگرام کے مصروف ترین شیڈول کی وجہ سے کینگروز کی میزبانی کے لیے 3،4 سال مزید انتظار کرنا پڑے گا، جنوری میں آسٹریلیا سے مچز کے لیے کراچی کا موسم بڑا سازگار ہوگا جبکہ فروری میں میچز پنجاب میں کرائے جاسکتے ہیں، ہم حالیہ ایونٹ کے اختتام پر اگلے ایڈیشن کے حوالے سے فرنچائرز سے بات کریں گے۔پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو نے کہا کہ کوویڈ کیسز میں اضافے کے بعد این سی او سی نے پاکستان میں میچز کرانے کی اجازت نہیں دی تھی، جس کے بعد ابوظبی میں لیگ کو ممکن بنانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، کئی چیزیں ہمارے کنٹرول میں نہیں تھیں، لوگوں نے یہ باتیں بھی کیں کہ بورڈ حکام سے بدانتظامی ہوئی، لیگ کو ممکن بنانے میں یواے ای کرکٹ بورڈ،ابوظبی اسپورٹس کونسل اور ٹیم مالکان کے بہت مشکور ہیں،ان کے تعاون سے ہی یہ میچز شروع ہونے جا رہے ہیں۔(خصوصی رپورٹ)۔۔