تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔
کسی ناگہانی کی اطلاع دینا یقینناً اس وقت حقیقی دکھ دہ بات ہوجاتی ہے کہ جب وہ اپنے متعلق ہواور اس وقت میں بھی اسی کیفیت سے لاچار اور دوچار ہوں ۔۔پندرہ مئی کو رات گئے میرے گھر کے سامنے کوئی چور میری موٹر سائیکل لے اڑآ ہے ۔۔ گزشتہ 15 روز میں میرے گھر کے سامنے ہوئی یہ دوسری واردات ہے کیونکہ پہلی مئی کو میرے بڑے بیٹے سے گن پوائنٹ پہ 30 ہزار روپے بمع عید کا جوڑا چھینے جاچکے ہیں ۔۔۔ میرے علاقے میں تو شاید ہی کوئی گھر اور فرد ایسا نہ بچا ہوگا کہ جسے اسٹریٹ کرمنلز نے منہ لگانے اور پستول دکھانے لائق نہ سمجھا ہو بلکہ اکثر کے نصیب میں تو ‘خود سپردگی’ کے یہ لمحات کئی کئی بار آچکے ہیں ۔۔۔ بلاشبہ اب زکوۃ کےنصاب سے باہر ہونے بلکہ مستحق ہونے کی ایک حجت یہ بھی بن چکی ہے کہ ‘ وہ فرد جس کو ڈاکؤوں تک نےلوٹنے لائق نہیں سمجھا ہے’ ۔۔۔
میرے اس عروس البلاد میں تو نوبت یہ آچکی ہے کہ جب تک روزانہ کے اخبارات میں قتل چوری ڈکیتی و رہزنی کی دس بارہ وارداتیں موجود نہ ہوں اخبار خالی خالی سا لگتا ہے بالکل کسی سماجی یا رفاحی انجمن کا بلیٹن معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ لیکن میری بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس شہر کی اوقات صرف دس بارہ وارداتوں کی ہے، اتنے جرائم تو بکمال مہارت اب ایک ہی پہر میں ہوچکتے ہیں ورنہ اس قدر بڑے شہر کے عالیجناب مجرموں کے پاس باقی سات پہر کرنے کو کیا بچتا کیونکہ پولیس کے ساتھ رابطوں اور لین دین کا حسب کتاب تو محض چند منٹوں کی بات ہے۔۔۔ یہ بات بھی ہرگز نہیں کہ پولس افسران ان وارداتی معاملات پہ تؤجہ نہیں دے رہے بلکہ اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اسی پہ خاص تؤجہ دے رہے ہیں بس مسئلہ یہ ہے کہ کسی ایک واردات کے لیئے ہونے والی میٹنگ میں کئی گھنٹے لگتے ہیں اور اس دوران مزید کئی اور وارداتیں ہوچکتی ہیں کیونکہ اس میں فقط چند ہی منٹ لگتے ہیں
چند برس قبل اس عاجز پہ بھی ڈاکؤؤن کی نگہء التفات پڑی تھی اور انہوں نے یہ نگہ جمائے رکھ کر کافی تعاقب کیا تھا اور پسندیدہ سنسان مقام آتے ہی مجھےاوور ٹیک کرکے پستول دکھا کے ٹیک اوور کرنے لگ گئے تھے لیکن اس موقع پہ نجانے کیسے مجھ سے یہ جرآت سرزد ہوئی کہ میں نے موٹر سائیکل سائیڈ پہ کرنے کے بہانے دائیں ہاتھ موجود ایک گیٹ پہ زور سے دے ماری اور اس کے زوردارردعمل کے اثر سے میںجھٹپٹ یوں خاک نشین ہوا کہ جیسے آناً فاناً موٹر سائکیل اوڑھ لی ہو ۔۔۔۔ چونکہ یہ ناگہانی کرتب ڈکیتی کے نصآب میں اور ڈاکؤوں کے حساب میں نہ تھا چنانچہ وہ ششدر ہوکر فوری طور پہ اپنی بائیک پہ اُُڑکے بیٹھے اور چمپت ہوگئے ۔۔۔ البتہ مجھے اس چمتکار کی داد وقوعہ پہ دوڑ کے آنے والوںسے بھرپور ملی تھی ۔۔۔ لیکن آئندہ اس ترکیب کا سازگار ہونا یقینی نہیں کیونکہ اس کے صحیح اور بروقت استعمال کے لئے دائیں ہاتھ ایک گیٹ کا موجود ہونا بیحد ضروری ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ ایسی جگہ تک پہنچنے دینا قطعی طور پہ ڈاکوؤں کی صوابدید پہ ہے
میرے کئی مبینہ دوستوں کا اصرار رہتا ہے کہ میں مثبت رویہ اپناؤں سو اب ان کے یہ تقاضے پورے کرنے کا وقت آگیا ہے اور اسی ضمن میں ان تازہ وارداتوں کے حوالے سے میری مثبت سوچ کا نچوڑ یہ ہے کہ میں خوش نصیبی کا یہ نکتہ بھی آپکے گوش گزار کروں کہ پہلی واردات میں میرے بیٹے سے30 ہزار چھنے سو چھنے اور عید کا جوڑا بھی گیا سوگیا مگر ساتھ خریدی گئی عطر کی شیشی محفوظ رہی ورنہ یہ نقصان ڈیڑھ سو روپے مزید بڑھ سکتا تھا ۔۔ اور دوسری واردات کے معاملے میں مسرت کا پہلو یہ ڈھونڈھ سکا ہوں کہ رات گئے گھر کے سامنے موٹر سائیکل چوری کے وقت میں اس پہ سوار نہ تھا اور خدا نے عین اس وقت مجھے گھر پہ رہنے کی خوش نصیبانہ توفیق بخشی تھی۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔