تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،عام طور پر کہاجاتا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے، لیکن ہمیں لگتا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن خود اس کا ’’نفس‘‘ ہے۔۔ کیوں کہ شیطان تو رمضان المبارک میں بند ہوجاتا ہے، پھر ملاوٹ، منافع خوری، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، اور دیگر غلط کام کون کراتا ہے؟جس طرح آپ کے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور موبائل فونز میں پہلے سے پروگرامنگ موجود ہوتی ہے، اسی طرح ہر انسان میں قدرتی پروگرامنگ فٹ ہوتی ہے۔۔ جیسا کہ غصہ، بے زاری، محبت، رحم دلی، کینہ، بغض،حسد،سخاوت، بہادری وغیرہ یہ سب پروگرامنگ کی اقسام ہیں۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ جو انسان نفس کا غلام ہوتا ہے، اسے ’’نفس یاتی‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔۔توآج کی اوٹ پٹانگ باتیں،نفس یاتی لوگوں کے نام کرتے ہیں۔۔ مردوخواتین شریک حیات میں کیا خواص پسند کرتے ہیں؟ اس حوالے سے ایک تحقیقاتی سروے میں ماہرین نے حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ اس سروے میں آسٹریلوی ماہرین نے مختلف ڈیٹنگ ایپلی کیشنز کے 7ہزار 325صارفین سے سوالات پوچھے۔ جوابات میں خواتین نے اپنے ممکنہ پارٹنر میں عمر،ذہانت، آمدنی اوراعتمادکو سب سے زیادہ ترجیح دی۔آسٹریلیا کی کوئنزلینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کی طرف سے کیے گئے اس سروے میں خواتین کے برعکس مردوں کی اکثریت نے اپنی ممکنہ شریک حیات میں ظاہری خوبصورتی اور جسمانی خدوخال کو ترجیح دی۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر اسٹیفن وائٹ کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے مردوخواتین کے سامنے ممکنہ شریک حیات کے خواص کی ایک فہرست رکھی اور انہیں ہر خصوصیت کو0سے 100کے درمیان نمبر دینے کو کہا۔ خواتین نے سب سے زیادہ نمبر عمر کو دیئے جبکہ مردوں نے سب سے زیادہ نمبر خواتین کی خوبصورتی کو دیئے۔۔یہ بات بھی اپنی جگہ سوفیصد حقیقت ہے کہ ہمارا تعلق ایسے معاشرے سے ہے جہاں ٹائم پاس کرنے کے لیے فیشن ایبل معشوقہ اور نکاح کرنے کے لیے دین دار لڑکی چاہیے۔۔ایک مراثی کا پانچواں نکاح تھا،مولوی نے پوچھا قبول ہے؟۔۔مراثی مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔۔مولوی اگے تینوں کدی نا کیتی اے۔۔؟؟ پروفیسر صاحب اپنی کلاس میں اختر شیرانی کی ایک نظم پڑھا رہے تھے۔۔جس میں شاعر نے کہا تھا کہ اس کی محبوبہ کی بھیگی ہوئی زلفوں سے ٹپکنے والی پانی کی ایک بوند میں اتنا نشہ ہے کہ اگر کوئی اسے پی لے تو زندگی بھر مدہوش رہے۔۔ایک شاگرد نے اٹھ کر کہا کہ۔۔سر! اگر پانی کی اس بوند کے ساتھ جوئیں بھی آ گئیں تو۔۔؟پروفیسر صاحب نے برجستہ کہا۔۔بات آپ کی محبوبہ کی نہیں،اختر شیرانی کی محبوبہ کی ہے۔۔کسی صاحب کی محبوبہ کی شادی ہو گئی،ایک دن غصے میں جا کر کہنے لگا۔۔میرے خط مینوں واپس کر دے۔۔وہ نیک بخت کمرے میں گئی ایک بڑا سا بیگ اٹھا کر لائی اور مظلوم کے سامنے الٹ دیا اور یہ گولڈن ورڈز کہے۔۔ ایناں وچوں اپنے لبھ لے میں باقیاں دے وی واپس کرنے نیں۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔ایک عورت ہی مرد کو کروڑ پتی بنا سکتی ہے،مگر شرط ہے کہ مرد ارب پتی ہو ۔۔وہ مزید کہتے ہیں کہ۔۔اگر بیوی خوش ہو تو شوہر بھی خوش ہوتا ہے لیکن اگر شوہر خوش ہو تو بیوی سوچتی ہے ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔۔شادی شدہ مرد بیگم کو مصیبت کہنے کے باوجود دوسری مصیبت کو بھی لانے کے لیے مر رہے ہوتے ہیں۔۔ ۔ عورتیں شادی ہو یا عید یا کوئی ایونٹ۔۔ دو بہترین سوٹ نکال کر شوہر سے پوچھتی ہیں کہ کونسا پہنوں ؟؟تو شوہر جس کو پہننے کا کہہ دے وہ تو کبھی نہیں پہنتی ۔۔ کیوں کہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ شوہر نہیں چاہتا کہ ان کی بیوی زیادہ اچھی لگے اور لوگوں کی نظروں میں آئے۔۔باباجی کا فرمان عالی شان ہے کہ ۔۔ عورت ’’ہار‘‘ تب قبول کرتی ہے جب ہار سونے کا ہو۔۔وہ مزید کہتے ہیں کہ ۔۔قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو کہتے تھے کہ وہ بیوی سے نہیں ڈرتے۔۔باباجی بتارہے تھے کہ لاک ڈاؤن کے دوران وہ ایک بار گھر میں ’’ٹاکی‘‘ لگارہے تھے، اچانک بیگم نے گیلے فرش پر پیر رکھ دیا، باباجی نے اپنی اہلیہ کو کھری کھری سنادی ، ہمیں بتانے لگے۔۔ دب کے رہنے والوں میں سے نہیں ہوں میں۔۔باباجی کی زوجہ ماجدہ کی طبیعت کافی دنوں سے ناساز تھی، ہمیں اچانک عید کی طرح اچانک یاد آگیا، باباجی سے ان کی اہلیہ کی صحت کے بارے دریافت کیا تو کہنے لگے۔۔بہتر ہورہی ہے، صبح لڑی بھی تھی۔۔ کسی جگہ جوا ہورہا تھا، پولیس نے چھاپہ مارا اور جواریوں کو پکڑ کر تھانے لے آئی۔۔ملزمان کوایس ایچ او کے سامنے پیش کیا گیا۔۔ایس ایچ او نے ملزمان کو دیکھتے ہی سب کو دس،دس چھتر مارنے کا حکم جاری کردیا۔۔ چھترول کا سن کر ایک جواری رونے لگااور بولا۔۔ سرجی، میں ملنگ ہوں، داتا کے مزارپر رہتاہوں، کچھ رحم کریں۔۔ ایس ایچ او نے حکم دیا، اسے صرف پانچ لتر مارو۔۔ یہ دیکھ کر ایک اور جواری نے رونا شروع کردیا، اس نے بھی داتا کے ملنگ ہونا کا دعوی اور رحم کی اپیل کی۔۔ ایس ایچ او نے اسے بھی پانچ لترمارنے کا حکم دیا۔۔اس طرح باری باری یہی چلتا رہا۔۔ جب آخری والے کا نمبر آیا تو وہ جواری بالکل خاموش کھڑا تھا۔۔ہاں جی، تُو بھی بتادے کس کا مرید ہے تاکہ تجھے بھی سزا میں رعایت مل جائے۔۔اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔سرجی میں تو ’’رن مرید‘‘ ہوں۔۔ یہ سن کر ایس ایچ او خوش ہوگیا،منشی کو آواز دے کر جلدی سے چائے لانے کا کہا۔۔منشی نے حیرت سے چائے لانے کی وجہ پوچھی۔۔ایس ایچ اوبولا۔۔یہ میرا ’’پیربھائی ‘‘ ہے۔۔۔اگر آپ شادی شدہ ہیں اور اپنی بیوی کی قدر و قیمت معلوم کرنا چاہتے ہیں تو فقط ایک ماہ کے لیے اپنی بیوی کو میکے بھیج دیں۔۔پھرکھانا پکانے کے لیے ایک باورچن رکھ لیں۔۔ کپڑے دھونے اور استری کے لیے ایک دھوبی رکھیں۔۔بچوں کی نگہداشت کے لیے ایک آیا کی خدمات حاصل کریں۔۔گھریلو سامان کی حفاظت کے لیے ایک چوکیدار بھی رکھ لیں۔۔اگر بچے ہیں،اور وہ سکول بھی جاتے ہوں تو ایک ٹیوٹر بھی ضروری ہے۔۔آپ یقین جانئی،کہ ان ملازمین کے ہوتے ہوئے بھی گھر کا نظام ایسے نہیں چلے گا،جیسے ایک بیوی چلاتی ہے۔۔ لہذا اپنی اپنی بیویوں کی دل سے قدر کیجئے۔۔حکومت نے تیس سال کے لوگوں کے لیے کورونا ویکسین رجسٹریشن شروع کردی، تب سے گھروں میں لڑائیاں شروع ہوگئی ہیں۔۔بندے کہتے ہیں رجسٹریشن کرالو۔۔بیویاں کہتی ہیں۔۔ابھی ہم تیس سال کی نہیں ہوئیں۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔عورت کے جنازے میں گھر کے افراد کہتے ہیں کہ میت کا منہ ڈھانپ دیں، غیر محرم نہ دیکھیں، یقین جانیئے زندہ عورت کے لیے بھی یہی حکم ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔