koi offer to kare film barae frokht

نفرت،مایوسی، رد عمل تو آئیں گے

تحریر: ناصر جمال

چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور اُن کی فیملی کے ساتھ بلیو ایریا اسلام آباد بیکری میں جو کچھ ہوا۔ اُس پر دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر رب تعالیٰ سے معافی اور حفاظت طلب کی۔وڈیو، پورے ملک میں آگ کی طرح وائرل ہوگئی۔نوجوان نے شناخت پر لفظ ”لعنت“ استعمال کیا۔اس واقعہ سے قبل شاہد خاقان عباسی کا بیان بھی سامنے آیا تھا کہ قاضی کے پاس دو راستے ہیں، تین سال کی نوکری یا عزت۔۔۔۔قلم کار کو یقین ہے کہ قاضی صاحب نوکری کی محبت ہی میں مبتلا رہیں گے۔

بہرحال، بیکری واقعہ کے بعد، جو مہا منافقانہ کردار عمران ریاض اور صدیق جان کی جانب سے ادا کیا گیا۔ کمال ہے۔ وہ اس واقعہ کی مذمت کررہے ہیں۔ یقینی طور پر مہذب معاشروں میں اپ فیملی کے ساتھ ہوں تو احتیاط برتی جاتی ہے۔ مگر پہلے تو یہ طے کر لیں کہ ہمارا معاشرہ تہذیب کے کس مقام پر کھڑا ہے۔اور آج کیا ہمارے معاشرے میں تاریخی گھٹن نہیں ہے۔جب آپ ”کتھارسز“ کے تمام پلیٹ فارم بند کرتے چلے جائیں گے پھر کیا ایسے واقعات نہیں ہوں گے۔کیا اج اپ کے 95 فیصد نوجوان یہ ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے۔مقامی یونیورسٹی میں لیگی صحافی نجم ولی کی موجودگی میں طالب علموں نے اس پر مہر ثبت کی ہے۔قلم کار تو صورتحال کو اس سے بھی زیادہ بگڑتا دیکھ رہا ہے۔ جس نوجوان نے لفظ ’’لعنت‘‘ استعمال کیا ہے۔ پہلے آپ اس کی نفرت اور پھر مایوسی کا اندازہ لگائیں۔ کیا، اس نفرت کے ذمہ دار یہی سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ، میڈیا، جج، اور بابو نہیں ہیں۔

کیا انہی کی گفتگو ،ایکشنز اور ری ایکشنز نے پورا معاشرہ تباہ و برباد نہیں کیا ؟ جن کے گھروں میں سیاہ پوش اور پولیس داخل ہوئی۔ جو خواتین اور بچوں کی تذلیل اور بے حُرمتی کی گئی۔ مردوں پر تشدد کیا گیا۔ گھر بار توڑ دیئے گئے۔ کاروبارہ تباہ ہوئے۔ نو مئی، انتخابات اور آٹھ فروری کے بعد جو کچھ ہوا۔ کیا اُس کا بیکری کے واقعہ موازنہ ہوسکتا ہے۔آج عدلیہ جو کردارادا کررہی ہے۔ آج کا واقعہ بھی اُسی کا ردعمل ہے۔ کیا خاندان صرف چیف جسٹس کا ہے۔ کیا عام آدمی کا خاندان، خاندان نہیں ہوتا۔ جس سے 77 سال سے اس ملک میں تذلیل کا ٹیسٹ میچ کھیلا جارہا ہے۔ کیا عزت صرف اشرافیہ کی ہے۔ کیا بنیادی حقوق صرف اسٹیبلشمنٹ، حکومت، عدلیہ اور بیورو کریسی کے ہیں۔

آپ ’’لعنت‘‘ کرنے والے نوجوان کو کیسے ولن بنا سکتے ہیں۔ اُس نے کونسا، غیر قانونی، غیر اخلاقی، یا غیر پارلیمانی لفظ استعمال کیا ہے۔ خواجہ آصف کوئی شرم ہوتی ہے۔۔۔ کوئی حیا ہوتی ہے۔ پنجابی لہجے میں کہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اس سوسائٹی میں کسی نے تو اپنے غصہ، نفرت، محرومیوں، بنیادی حقوق کی پامالیوں پرکچھ تو کہا۔۔۔۔ ایک مردہ معاشرے میں کسی نے تو آواز بلند کی۔اس ویڈیو کو کروڑوں کی تعداد میں پوسٹ اور ٹویٹ بھی کیا جا رہا ہے۔اوپر سے منافقت کا لبادہ بھی اوڑھا ہوا ہے۔دو رنگی اور دوغلا پن اور کسے کہتے ہیں۔منٹو نے عدالت میں فحش نگاری کہ مقدمے میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میرے افسانے آئینہ ہیں۔جس میں معاشرہ اپنا عکس دیکھ سکتا ہے۔ اگر میرے افسانے ناقابل برداشت ہیں تو آپ کیوں نہیں مانتے کہ آپ کی سوسائٹی بھی ناقابل برداشت ہے۔ میں نے اپنے پاس سے کیا لکھا ہے۔ جو معاشرے میں ہورہا ہے۔ وہی لکھا ہے۔

قارئین!!!منافقت کئے بغیر بتائیں کہ نوجوان نے جوکچھ کہا وہی کچھ آپ اور میں، صُبح و شام بے حس حکمرانوں اور ذمہ داروں کو کیا کچھ نہیں کہتے۔ اپنے گریبان میں جھانکیں۔نجی محفلوں میں اس کا لیول کیا ہوتا ہے سب کو پتہ ہے۔۔آج ملک جس عذاب میں ہے۔ کیا اُس میں معزز چیف جسٹس کا حصہ نہیں ہے۔وہ اپنے کئے کے قوم کو جواب دہ ہیں۔جسٹس منیر سے شروع ہونے والی لعنت نے کیا پورے عدالتی نظام کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے رکھا ؟ حوصلہ کریں۔ کچھ نہیں ہوگا۔جی ہاں! مجھ سمیت پوری قوم اس کے رہنما اور ادارے سب روایت، اقدار، حمیت، غیرت، نظم و ضبط کے تحت چل رہا ہے۔ اگرایسا نہیں ہے توپھر بولتے کیوں نہیں ہیں۔

میں بھی سر پھوڑنے سے باز نہیں آتا ہوں

وہ بھی !!! دیوار نئی، روز اٹھا دیتا ہے

آج مفلسی اور لاقانونیت، اس ملک میں ننگا ناچ رہی ہے۔ کیا ’’لوٹا کریسی‘‘ کا نیا باب ملک میں رقم نہیں ہورہا۔ کیا چیف جسٹس کے ریمارکس، فیصلوں اور عمل میں تضاد نہیں ہے۔ ان کی سوشل میڈیا پر پوسٹ وائرل ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر آرڈیننس ہی جاری کرنے ہیں تو پارلیمنٹ کو تالا لگا دیں۔آج حکومت کے بدنیتی پر مبنی جاری پریکٹس اینڈ پروسیجر ارڈیننس پر چیف جسٹس نے جو پھرتیاں دکھائی ہیں۔اب اس پر قوم کیا سوال بھی نہ کرے۔وہ اپنی عدالت میں صحافیوں کو جس طرح سے لتاڑ رہے ہیں۔ایسا دنیا بھر میں کب اور کہاں ہوتا ہے۔

انتہائی معذرت کے ساتھ،چیف جسٹس پوچھیں، پڑھیں، بابائے قوم نے سبی دربار میں، قاضی عیسیٰ کے پھول لینے سے انکار کرتے ہوئے ان کا سلام کے لئے بڑھا ہوا ہاتھ، زور سے جھٹک کر یہ کیوں کہا تھا کہ جائو، ابھی بیس سال اور جاکر، پڑھو۔۔۔۔ کیا تاریخ بدل جائے گی۔ تاریخ میں صرف کردار زندہ رہا کرتے ہیں۔ بے کرداری پر صدی در صدی لعنت کرتی ہے۔ ایوب خان کے بیٹے، اب پوتے، خواجہ آصف کی طرح آمریت کا ساتھ دینے پر اپنے بزرگوں کی لعنت سمیٹ رہے ہیں۔ بھٹوز کو بھی ’’ڈیڈی‘‘ کے طعنے ایسے نہیں ملتے۔ پاکستان کی مخالفت پر جماعت اسلامی، جے۔ یو۔ آئی، اے۔ این۔ پی آج بھی نشانے پر ہوتے ہیں۔

زور زبردستی اور بندوق کے نشانے پر ترامیم ہوجائیں گی۔ آپ کا اقتدار کا سورج، اور کتنے سال روشن رہےگا۔ مگر عوامی لعنت کبھی آپ کا اور آپ کی نسلوں کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔

ابن علقمی، ابودائود، میر جعفر، میر صادق، آج بھی تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہیں۔ حسین شہید سہروردی، جونیجو تو آج بھی قابل احترام ہیں۔ بابائے قوم، شہید ملت، مادر ملت، تمام ظلموں کے باوجود آج بھی قوم کے ہیرو ہیں۔ کہاں ہے اسکندر مرزا، ایوب، یحیحیٰ خان، ضیاء الحق، مشرف، سب تاریخ ہوگئے۔ آج ستر سالہ نسل، عمران، نواز، زرداری، مولانا، خواجہ آصف، اعتزاز، سمیت سب کیوں سیکھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر آج بھی یہ کیوں تذبذب کا شکار ہیں۔ ؟

کیا اعتزاز احسن کو بلاول کا جواب نہیں دینا چاہیے۔وہ ان پر رقیق حملے کر رہا ہے۔وقت بہت بے رحم ہے۔کبھی اعتزاز احسن نے نواز شریف اور ان کے کشمیری ساتھیوں کی فرمائش پر پارلیمنٹ میں چوہدری نثار علی خان کو ٹارگٹ کیا تھا۔ اعتزاز احسن نے اس روز صحافیوں کو کہا تھا کہ میں نے جب چوہدری نثار کی کلاس لی تو خواجہ اصف خواجہ سعد رفیق خرم دستگیر پرویز رشید میرے پاس ائے اور کہا کہ ابھی آپ نے چوہدری نثار کو کم جوتے لگائے ہیں۔آج بلاول اعتزاز کو ٹارگٹ کر کے کہہ رہا ہے کہ ان کے چیمبر انہی ججوں کی وجہ سے چلتے ہیں۔اب کوئی وکیل اٹھے گا اور کہا کہے گا ریاست ہوگی ماں کے جیسی چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔چوھدری نثار علی خان نے تاریخی غلطی کی انہوں نے اس روز چوہدری اعتزاز احسن کو پارلیمنٹ میں بڑے باؤجی کی منافقت بھری پالیسی کے تحت پلٹ کر جواب نہیں دیا۔وہ آج بھی اپنے ضمیر کا قیدی ہے۔یہی غلطی چوہدری اعتزاز احسن کرنے جا رہے ہیں انہیں بلاول کو جواب دینا ہوگا۔وگرنہ وہ بھی چوھدری نثار کا انجام یاد رکھیں۔سیاست عزت کے لیے کرتے ہو تو پھر جواب بھی دو یا پھر رضا ربانی کی طرح زرداری کے سامنے گردن جھکا لو۔

یہ 72 سالہ نسل کی بھول ہے کہ ان کی نالائق اولادیں، اس ملک پر ایک بار پھر مسلط کردی جائیں گی۔

ملک سلامت رہا تو سب تاریخ کے کوڑے دان میں ہونگے۔ سب سے مایوس کُن اور شرمناک کردار، بھٹو کے وارثوں کا ہے۔ اتنی بے حسی، بے کرداری،ڈھٹائی اور اسٹیبلشمنٹ کی غلامی، اب تو غیر اخلاقی اشارے بھی شروع کر دیئے ہیں۔ یقین ہی نہیں آتا، یہ بازاری زبان، بی بی کا فرزند استعمال کررہا ہے۔

جہانگیر نے سطحی لفظ استعمال کیے۔ مہابلی اکبر کو پتہ چلا تو شہزادے کو طلب کیا اور کہا کہ شہزادے اور چمار کی زبان میں فرق ہونا چاہئے۔

اسٹیبلشمنٹ کے ڈنڈے، انڈے اور رندے پر اکڑنا، انھیں زیب نہیں دیتا۔

کتنی عجیب بات ہے کہ جو بھی اسٹیبلشمنٹ، شریفوں، زرداری سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ وہ رسوا ہورہا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے ابھی تک تو سیانے پن کا ثبوت دیا ہے۔ مگر لوگ ابھی تک مولانا کی سیاسی قلابازی کا پتا نہیں کیوں انتظار کررہے ہیں۔؟

آئی۔ ایم۔ ایف پروگرام پر سب خوشیاں عارضی ہیں۔ 36 سو ارب کے نئے ٹیکس لگیں گے۔ بجلی اور بڑھے گی۔ ٹیکس خسارہ، چار ہزارارب سے بھی اوپر جانے کا امکان ہے۔ تین ماہ کا خسارہ چار سو ارب سے زائد بتایا جارہا ہے۔ حکومت کہتی ہے مہنگائی نو فیصد ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ کہہ رہا ہے مہنگائی 34 فیصد سے 23.4 فیصد پر آگئی ہے۔

سب کو ہی پتا ہے کہ کون جھوٹا ہے۔

سیاسی عدم استحکام، ملک کی معاشی جڑیں کھوکھلی کرہا ہے۔ قوم اور اشرافیہ دو الگ سمتوں میں کھڑے ہیں۔ عدلیہ، پارلیمنٹ، انتظامیہ اوراسٹیبلشمنٹ ناک آئوٹ ہوچکے ہیں۔

ایک بہت بڑی تباہی اور شاید مکمل تباہی ہماری منتظر ہے۔اوپرسے حافظ صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے ”ملک ریاض“ کو آئی کا نیا چیف مقرر کیا ہے۔ یعنی پرائیویٹ سیکٹر اور محدود ہوگا۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ اور ڈی ایچ اے پراپرٹی کو آسمانوں پر لے جانے اور 70 لاکھ ایکڑ کارپوریٹ فارمنگ کا نابغہ روزگار آئیڈیا ان ہی کا بتایا جاتا ہے۔یعنی 70 لاکھ کی بجائے قوم اب سات کروڑ ایکڑ تیار رکھیں۔کسی حکمران بابو یا شخص کی جرات نہیں ہوگی کہ انہیں انکار کر سکے۔ ملٹری کارپوریٹ سیکٹر اب نئی بلندیاں چھوئے گا۔قیصر بنگالی سے معذرت کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔ نجکاری، گڈ گورننس، خواب ہی رہیں گے۔

 مولانا فضل الرحمٰن، پیر پگارو، شاہد خاقان عباسی، اعتزاز احسن، محمود اچکزئی، مشاہد حسین، چاہیں تو ایک پلیٹ فارم سے ملک بچاؤ کی مشترکہ آواز اٹھا کر، پل کا کردار ادا کریں اور تباہی کا دائرہ محدود کردیں۔قلم کار کا یہ محض ایک آئیڈیا ہے۔کیونکہ ملک میں اج بھی کوئی ایک ایسی شخصیت نہیں ہے جو اس وقت اپنا اہم ترین کردار ادا کرے۔اب نواب زادہ نصر اللہ خان کو تو قبر سے اٹھا کر لانے سے رہے۔                     قلم کار تو دیوانے ہوتے ہیں۔

چھوڑیں۔۔۔ جب سب کو اپنی، اپنی پڑی ہو تووہاں کیسا کردار، سب بکواس ہے۔

جہاں ایک شخص اپنی ضد انا غصے ہٹ دھرمی کی وجہ سے پوری ریاست معاشرے آئین قانون معیشت اخلاق روایات اقدار سب کو برباد کر رہا ہے۔اور اسے اور اس کے حواریوں کو رتی بھر بھی پرواہ نہیں ہے۔تو وہاں پر بے حسی ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔بقول امجد اسلام امجد۔۔

ہوا ہی ایسی چلی ہے کہ ہر ایک سوچتا ہے

تمام شہر جلے ایک میرا گھر نہ جلے(ناصر جمال )

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں