تحریر : عامر سید۔۔
کافی عرصے سے علیل ممتاز سینئر صحافی اور استاد نادر شاہ عادل خالق حقیقی کے حضور پیش ہوگئے۔ انا للّہ وانا الیہ راجعون۔ شاہ جی کی رحلت سے صحافت کا ایک روشن باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔ اللّہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل اور اس پر اجر عظیم عطا فرمائے، آمین۔
شاہ جو بہت زندہ دل اور عوامی طبیعت کے مالک تھے۔ جب کراچی سے روزنامہ خبریں کا اجراء ہوا تو روز اول ادارتی مدیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ میں گروپ منیجر ٹیکنیکل تھا تو شب و روز کا تعلق بن گیا شاہ جی کے لئے شبیر چوہدری مرحوم ریزیڈنٹ ڈائریکٹر خبریں کراچی نے ایک گاڑی مختص کی ہوئی تھی جو ان کی رہائش گاہ لیاری سے خبریں کے دفتر محمود آباد لایا اور لے جایا کرتی تھی۔
ایک مرتبہ کاپی ڈائون ہوئی تو مجھ سے فرمائش کی کہ مجھے صدر چھوڑ دو گے۔۔ میں نے کہا شاہ جی آپ کی گاڑی اور ڈرائیور منتظر ہے میرے ساتھ موٹر سائکل پر کہاں دھکے کھائیں گے مگر وہ بضد تھے کہ میرے ساتھ ہی جانا ہے۔
میں نے انہیں بٹھایا وہ تمام راستے ذکر و اذکار کرتے رہے۔ صدر پہنچ کر ایمپریس مارکیٹ کے ہجوم میں کہا کہ بس یہاں اتار دیں۔ میں نے پھر عرض کی کہ شاہ جی آپ اپنا کام نپٹا لیں پھر میں آپ کو گھر چھوڑ کر آئوں گا۔ تو انہوں نے عجیب جواب دیا۔۔۔ عامر میاں یہ کار اور ڈرائیور سے دم گھٹتا ہے۔۔ مجھے عوام سے دور کردیا ہے اس شاہی سواری نے۔۔ بس یہاں ٹھیلوں پر آوارہ گردی کروں گا عوام سے ملوں گا اور پھر بس میں لیاری جائوں گا۔
ایسی ہی شخصیت تھی شاہ جی کی۔۔۔ آغا خالد بھائی کی بھی بے شمار یادیں ہیں دیکھیں وہ ہب قلم بند کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ تو آغا صاحب نے شاہ جی کو کلمہ تک پڑھوادیا تھا۔
بس اب یادوں میں ہی ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ سنا ہے ان کی اولاد سے بھی انہیں مشکلات ملیں اس حوالے سے علی عمران جونئیر بہتر رائے دے سکتے ہیں۔
اللہ ان کی آخرت کی منازل آسان فرمائے اور اپنی جنتوں کا مہمان بنائے۔۔ کہ عجیب درویش آدمی تھے۔(عامر سید)۔۔