تحریر: ایاز امیر۔۔
ہمارے بھائی لوگ غلطی کھا گئے اور ملک میں جو ہوا وہ ایک بڑی غلط فہمی ثابت ہو رہی ہے۔ سب کچھ اُن سے ٹھیک ہوا صرف یہ سمجھنے میں مار کھا گئے کہ حکومت بدلنے کے بعد کیا ہوگا۔ عوامی ردِ عمل جو ہوا ہے اُس کی ان کو قطعاً توقع نہ تھی۔ اور اب جب عوام بپھر چکے ہیں اور ہر طرف سے تنقید ہو رہی ہے تو کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آگے کیا کرنا ہے۔
جو سرکس ہمیشہ ہوتا رہا ہے وہ الٹ ہو گیا ہے۔ ہماری تاریخ تو یہ ہے کہ سیاسی عناصر کو نچایا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ نچانے والوں کو ناچنا پڑ رہا ہے۔ اس سے زیادہ واضح میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ قصہ یوں ہے کہ جسے ون پیج کہا کرتے تھے بیشتر ہم میں سے اُس کی نوعیت سمجھ نہ سکے تھے۔ ون پیج کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ عمران خان کسی کے سائے کے نیچے آ گئے ہیں۔ حقیقت میں ہر کام میں ملوث ہوکر اگلے اُن کاموں میں پھنس گئے جو اُن کا کام ہرگزنہ تھا۔ عمران خان نیچے کسی کے نہیں لگے‘ اگلے نہ سمجھ سکے کہ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پھر سے دہرا دیتا ہوں کہ پاکستانی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا تھا کہ اثرانداز ہونے کے بجائے اگلے خود انجانے طور پر اثر لے رہے تھے۔
اب میں کیا کہوں کہ ون پیج کی سب سے نمایاں نشانی کیا تھی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے گرائیں تھے جن کے بارے میں یہ تاثر عام ہوا کہ اگلے شہسوار وہ ہوں گے۔ اس تاثر کے پھیلائے جانے سے ہوا کیا کہ جو بڑے قریب سمجھے جاتے تھے اُن میں دوریاں پیدا ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ شکوک و شہبات پیدا ہو گئے۔ یہ تصور بھی پیدا ہوا کہ اگر آئندہ شہسوار وہی چنے گئے جن کے بارے میں لنگر گپ تھی تو ملک میں تباہی مچے گی۔ عمران خان اور وہ مل کر ہرچیز کو تہس نہس کر دیں گے اور ملک میں ایک فاشسٹ آمریت قائم کر دی جائے گی۔ مجھے دھمکی دینے جو صاحب آئے تھے اُنہوں نے انہی الفاظ میں یہ کہا تھا کہ ڈر پیدا ہوچکا تھا کہ بطور شہسوار عمران خان کی یہ چوائس ہوگی اور پھر ایک نئی طرزِ حکمرانی جنم لے گی۔ جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا اُس کا تعلق قومی معیشت سے تھا نہ عالمی سیاست سے۔ عمران خان کو ہٹانے کے پیچھے یہ خوف تھا کہ پتا نہیں فلاں سے مل کر وہ ملک میں کیا کر دیں گے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ یہ مفروضہ ہی غلط تھا۔ عمران خان کچی گولیاں کھیلنے والے نہیں۔ جو اُنہیں اچھی طرح جانتے ہیں گواہی دیں گے کہ وہ کسی ایسے شخص کو ہرگز شہسوار نہ چنتے جس کی شخصیت متنازع ہو چکی ہو یا جس کے بارے میں سیاسی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہوں۔ یعنی اس بارے میں توقع کا فیصلہ عمران خان نے ہرگز نہ کرنا تھا۔ لیکن جب لوگوں کی صفوں میں شکوک پیدا ہو چکے تھے تو یہی سمجھا گیا کہ بطور شہسوار عمران خان کی چوائس وہی شخص ہوگا۔ اور اس بنیاد پر ساری منصوبہ بندی کی گئی‘ یعنی ایک غلط مفروضے کو بنیاد بنا کر ایک پوری سکیم تیار کی گئی۔ جب مفروضہ ہی غلط ہو تو نتیجہ کہاں سے ٹھیک نکل سکتا ہے۔ یہاں یہی ہوا کہ اگلوں سے غلط فہمی کی بنا پر غلط فیصلہ ہو گیا اور غلط فیصلے کے نتیجے میں ایسی صورتِ حال ملک میں پیدا ہو چکی ہے جو کنٹرول سے باہر ہے۔
اگلوں کیلئے بنیادی ستم یہ ہے کہ ملک کی صورتِ حال وہ نہیں جو گزرے زمانوں میں ہوا کرتی تھی۔ ایک حکم آتا تھا اور سب کچھ زمین بوس ہو جاتا تھا۔ ماحول بدل چکا ہے‘ دنیا آگے کو جا چکی ہے۔ انٹرنیٹ کا کس کو تصور تھا‘ کس کو خیال تھاکہ ہاتھ میں ایک چھوٹے سے فون کے ہوتے ہوئے ساری دنیا سے ملاپ ہو سکے گا۔ سوشل میڈیا کی اصطلاح کا کس نے سنا تھا۔ معزول ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے مقتدرہ کو للکارا تھا لیکن پھر قتل کا مقدمہ بھٹو پر دھر دیا گیا اور پھر بھٹو کو تختہ دار تک جانا پڑا۔ نام اُن کا رہا لیکن وہ خود تو چلے گئے۔ بے نظیر بھٹو اُن کی جانشین بن کر آئیں لیکن حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اُنہوں نے کبھی مقتدرہ کو ایسا چیلنج نہ کیا جیسا کہ اُن کے والد نے کیا تھا۔ ہٹائے جانے کے بعد نواز شریف نے بھی مقتدرہ کو چیلنج کیا تھا لیکن زیادہ دیر اس چیلنج کو نبھا نہ سکے۔ جی ٹی روڈ پر نکلے تھے اس امید کے ساتھ کہ پنجاب کھڑا ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور حالات کے جبر کے تحت اُن کا نعرہ مدھم پڑتا گیا اور آخرکار دم توڑ گیا۔ نوازشریف آج اُن عناصر میں شامل ہیں جو اشارے اور تھپکی لے کرعمران خان کے خلاف صف آرا ہوئے۔ یعنی نواز شریف کا نعرہ ”ووٹ کو عزت دو‘‘ ہوا میں تحلیل ہوگیا۔
عمران خان کا چیلنج ایسا ہے جس کیلئے در پردہ قوتوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔ عوام اُن کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں‘ ہر محاذ پر‘ اشاروں سے‘ تشکیل شدہ بندوبست کو عمران خان روزانہ کی بنیاد پر لتاڑ رہا ہے اور نہ تشکیل شدہ حکومت اورنہ پیچھے کی قوتوں کے پاس کوئی مؤثر جواب ہے۔ اسی لیے قومی منظر نامہ ایک تعطل کا شکار ہے‘ ایسا تعطل جو کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ منظر نامہ بنانے والوں کو آگے جانے کا راستہ نظر نہیں آرہا۔ الیکشن ہوتے ہیں تو کوئی ضمانت ہے کہ عمران خان بھاری اکثریت سے پھر اقتدار میں نہ آئیں گے؟ اور ایسا ہوا تو پھر زائچہ بنانے والوں کا کیا بنے گا؟ الیکشن نہ کروانا تو کوئی آپشن نہیں ہے۔ ضیا الحق کا زمانہ ہوتا تو شاید یہ آپشن چل جاتا لیکن ایسا اب ممکن نہیں۔ زائچہ بنانے والوں کی سوچ تھی کہ شہباز شریف کو بِلڈ اپ کیا جائے۔ جو افلاطون مجھے ہوٹل میں ملنے آئے تھے اُنہوں نے کھلے الفاظ میں شہباز شریف کا نام لیا تھا۔ لیکن ہوش میں رہتے ہوئے کوئی شخص سوچ سکتا ہے کہ موجودہ صورتِ حال کا مقابلہ شہبازشریف جیسا شخص کر سکتا ہے؟ جہاں مہرے ہلانے والے ناکام ثابت ہوں وہاں کوئی مہرہ کس کام کا رہ جاتا ہے؟
یہی تو مخمصہ ہے کہ ڈوریاں کھینچنے والے ایک ایڈونچر تو کر بیٹھے ہیں لیکن اب انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ آگے کیا کرنا ہے۔ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کا لہجہ ٹھیک نہیں۔ خوب منطق ہے کہ آپ کریں جو آپ کے دماغ میں آئے لیکن جس کے خلاف آپ نے کارروائی کی ہے اُس کا لہجہ آپ کی نازک طبیعت پر گراں گزرے۔ مزید ستم یہ کہ ایسی شکایات کے علاوہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے۔ بھٹو کے خلاف جو مقدمہ قائم ہوا تھا آج ہو سکتا تو شام تک کسی تھانے میں درج ہو چکا ہوتا۔ ایسا ممکن نہیں رہا لہٰذا دانت پیسنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اور ملک کی صورتِ حال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ جہاں بیٹھیں ایک تو مہنگائی کا رونا اور ایک ایسی شدید تنقید جو پہلے اُس سمت میں کبھی ہوتی نہ تھی۔
لاہور میں جو میرے ساتھ واقعہ ہوا اُس کے بعد عید کی چھٹیاں گاؤں میں گزاریں۔ لوگ ملنے آئے۔ ہمارا فوجی علاقہ ہے‘ ہر گھر نہیں تو ہر دوسرے گھر میں حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی بستا ہے۔ ایسے لوگوں کی گفتگو سن کر میں حیران رہ گیا۔ اس نوعیت کی گفتگو ہمارے علاقے میں کبھی پہلے نہ سنی تھی۔ ناسمجھوں نے ملک کو کہاں پہنچا دیا ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)۔۔