کیا کچھ ہوا، تفصیلی رپورٹ۔۔۔
قو می احتساب بیورو،(نیب ) کراچی نے محکمہ اطلاعات سندھ کے دفتر پر چھاپہ مار کر ضروری ریکارڈ قبضے میں لے لیا، نیب کی ٹیم کئی گھنٹے دفترمیں موجود رہی اور عملے سے پوچھ گچھ بھی کرتی رہی ،ذرائع کے مطابق نیب کی کارروائی ماضی میں ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن ،غیر قانونی بھرتیوں ،ترقیوں اور دیگر انکوائریوں کے سلسلے کی کڑی ہے ۔نیب نے 2015سے2018کے دوران اشتہارات میں مبینہ کرپشن اور گریڈ 17کے افسران کی غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے دو علیحدہ تحقیقات شروع کی ہیں ۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ،میگا منی لانڈرنگ معاملے پر بھی نیب کی ٹیم نے کچھ فائلیں اور اہم ایکارڈ تحویل میں لیا ہے ۔ٹیم نے ڈائریکٹر اشتہارات اور دیگر عملے سے بھی پوچھ گچھ کی۔ذرائع کے مطابق نیب اہلکاروں نے فائلوں کے بنڈل گاڑی میں اپنے آفس منتقل کیئے ،سیکریٹری سندھ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ عبدالرشید سولنگی اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کو اس سے متعلق موقف کیلئے بارہا کال کی گئیں لیکن دونوں نے ہی جواب دینے سے گریز کیا ۔ ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ سندھ حکومت نے ڈمی اخبارات کے نام پر اربوں کے اشتہارات جاری کئے ، اربوں روپے کی کرپشن کا تعلق میگا منی لانڈرنگ سے جوڑا جارہا ہے۔نیب کی ٹیم نے 11بجے کے وقت محکمہ اطلاعات سندھ کے دفتر پر چھاپہ مارا اور دو گھنٹے تک وہاں موجود رہی ، جب کہ دو سینئر افسران جن کا تعلق اشتہارات اور ہیومن ریسورس شعبوں سے تھا اور وہ ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدوں پر فائز ہیں ، سے پوچھ گچھ کی گئی۔2016میں نیب نے سابق وزیر شرجیل انعام میمن اور اس وقت کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات ذوالفقار شہلیانی ، محکمہ اطلاعات سندھ کے ڈائریکٹر منصور احمد راجپوت اور دیگر افسران کے خلاف مبینہ کرپشن پر تحقیقات شروع کی تھیں ، جس میں 2013سے 2015کے دوران صوبائی حکومت کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا میں آگاہی مہم کے حوالے سے اشتہارات دیئے گئے تھے ، جس کی وجہ سے قومی خزانے کوتقریباً 3اعشاریہ27ارب روپے کا نقصان پہنچا تھا۔اس حوالے سے محکمے کے سابق وزیر شرجیل میمن ، سابق سیکرٹری ذوالفقار شہلیانی ، ڈائریکٹر منصور راجپوت سمیت دیگر افسران کرپشن مقدمات کے باعث جیل میں ہیں اور یہ معاملہ احتساب عدالت کراچی میں زیر سماعت ہے۔نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں2015سے2018کے دوران اشتہارات میں مبینہ کرپشن اور گریڈ 17کے افسران کی غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے حکام نے دو علیحدہ انکوائریاں شروع کی ہیں ۔جب کہ نیب کی جانب سے متعدد خطوط ارسال کیے جانے کے باجود محکمہ اطلاعات سندھ مکمل تفصیلات فراہم کرنے سے ہچکچارہا ہے۔نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی ٹیم نے ان بے ضابطگیوں سے متعلق اہم ریکارڈ اپنے قبضے میں لے لیا ہے ، جو کہ مزید تحقیقات میں معاون ثابت ہوگا۔انفارمیشن افسر ان کی مبینہ غیر قانونی بھرتیوں کی انکوائریوں سے متعلق دی نیوز کے پاس دستیاب ریکارڈ کی کاپیوں کے مطابق نیب نے ایک سرکاری خط میں انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سندھ کو بھرتیوں کے کنٹریکٹ کی تفصیل بمعہ اہلیت و تجربہ اور ان کی تنخواہوں کی تفصیل بشمول ان کی تنخواہوں کی ادائیگی اور اطلاعات دیے جانے کا کہاگیا ہے کہ کہیں ان افسران کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی پابندی کے دوران تو بھرتی نہیں کیا گیا ۔سندھ سروس رولز کے مطابق انفارمیشن افسر کی تعیناتی صرف ان میدواروں کیلئے ہوتی ہے کہ جو ماس کمیونکیشن یا جرنلز م کی ڈگری کے حامل ہوں اور یہ آسامی سندھ پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحان کے بعد پر کی جاتی ہے اور اس طریقہ کار میں دونوں بنیادی شرائط کی خلاف ورزی کی گئی ۔دی نیوز کے پاس دستیاب دستاویزی ثبوت کے مطابق سال 2012 میں جب یہ غیر قانونی بھرتیاں کی گئی تھیں ایک سمری وزیر اعلی سندھ کو بھیجی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ وزیر اعلی کو اہلیت یا انفارمیشن افسر کی آسامی کے طریقہ کار میں رول نمبر 3،سب رول 3اپائنٹمنٹ ،پروموشن اور ٹرانسفر رول 1973میں تبدیلی کا اختیار ہے لیکن اصل میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے ۔اس طرح ڈیپارٹمنٹ نے صرف من پسند امیدواروں کیلئے گنجائش نکالی اور وزیر اعلی سندھ کو بے خبر رکھاگیا ۔یہ بھرتی کیے جانے والے افسران میں سے زیادہ تر حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی )رہنمائوں کے قریبی رشتہ دار اور کچھ منظور نظر صحافیوں کے بیٹے ،بھائی اور قریبی رشتہ دار تھے۔ ۔(بشکری دی نیوز)۔۔