muzzafargarh ke sahafi dosto ke naam | Adnan Bhatta

مظفرگڑھ کے صحافی دوستوں کے نام

تحریر: عدنان بھٹہ۔۔

یاد رکھیں ! بھیڑ میں شور ہوتا ہے،،،،کام کی بات نہیں ہوسکتی۔۔

مظفرگڑھ کے صحافی دوست مجھ سے سوال کررہے ہیں کہ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے ملاقات کی دعوت موصول ہونے کے باوجود بھی آپ ملاقات کے لیے صحافتی وفد میں کیوں شامل نہیں تھے،،ان کے لیے چند گذارشات قلمبند کرنے پر مجبور ہوا ہوں،،،چودہ نومبر کو وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ڈی ایچ کیو ہسپتال میں پہنچے تو ہم صرف چند صحافی دوست بھی کوریج کے لیے ہسپتال پہنچ گئے،،ضلعی انتظامیہ کی شدید ترین مخالفت کے باوجود وزیراعلی پنجاب سے میڈیا ٹاک کی،،اس دوران وزیراعلٰی پنجاب نے صحافیوں کو لاہور میں ملاقات کی دعوت دی،،،ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس کے ذریعے ملاقات کے لیے اقدامات ہونے لگے،،،ایک روز ملاقات کے روح رواں ایک صحافی دوست میرے پاس تشریف لائے،،میں نے صحافیوں کے حقوق اور مفادات کے حوالے سے ہونے والی مجوزہ ملاقات کا ایجنڈا دریافت کیا،،تو انھوں نے یقین دلایا کہ ملاقات کے لیے نکلنے سے ایک روز قبل مل بیٹھ کر ایجنڈا طے کرلیا جائیگا،،مجھے مطمئن کرکے وہ روانہ ہوگئے،،،

اگلے روز ملاقات کے روح رواں ایک اور دوست سے ملاقات ہوئی،،انھوں نے یقین دہائی کروائی کے پریس کلبوں کے معاملات الگ تھلگ رکھ کر صرف صحافتی کالونی کے مشترکہ مطالبہ ہی ملاقات کا لب لباب ہوگا،،مجھے خوشی ہوئی کہ چلو معاشرے کے پسے ہوئے طبقے عامل صحافیوں کے لیے اس سے بڑھ کر کیا چیز ہوسکتی ہے،،میں نے انکی بات پر بھی یقین کرلیا،،اب ملاقات کے حوالے سے انفارمیشن آفس کی بات کرنا چاہتا ہوں،،وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے ملاقات کے لیے لسٹ بنانے ذمہ داری انفارمیشن آفس نے اپنے نازک کندھوں پر اٹھالی،،صوبے کے چیف ایگزیکٹو سے ملاقات کے لیے اگر آپ 5,7 لوگوں کو شامل کرتے تو انھیں صحافیوں کی بہترین ترجمانی کا اچھا موقع مل جاتا اور اسکے لیے مجھے بھی ڈراپ کردیا جاتا تو باخدا مجھے ایک لمحے کے لیے بھی افسوس نہ ہوتا،،،ایک ملاقات کے لیے سفارشوں پر بندے بھرتی کیے جاتے رہے اور اس بات کا بھی خیال نہ رکھا گیا کہ صحافتی وفد میں آپ ایسے نام نہاد صحافیوں کو بھی شامل کررہے ہیں جو اپنی پوری زندگی میں آجتک ایک خبر بھی اپنے ہاتھ سے نہیں بناسکے،،22 رکنی صحافتی وفد میں انفارمیشن آفس کے 2 افراد اور 6 دیگر ایسے غیرصحافتی عناصر تھے جنھیں صحافیوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا،،،

بارہ دسمبر کو  مجھ سمیت وفد میں شامل دیگر صحافیوں کو میسج موصول ہوا کہ 13 دسمبر کو لاہور روانگی ہے اور 14 دسمبر کو وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے ملاقات طے ہے،،میں نے ادھر ادھر سے معلومات چیک کیں کہ ملاقات تو ہے لیکن اتنی اہم ملاقات کے لیے صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایجنڈا کیا ہوگا،،؟ اسکی تشکیل کے حوالے سے ملاقات کے روح رواں ہمارے صحافی دوستوں کی جانب سے نہ تو کوئی میٹنگ کرنا گوارا کی گئی اور نہ ہی ایجنڈے کے حوالے سے کسی کو معلومات حاصل تھیں..غیرضروری طور پر بڑا صحافتی وفد اور ملاقات کے ایجنڈے کے حوالے سے سنجیدگی دیکھ کر مجھے لگا کہ میرا جانا بھی ٹائم کا ضیاع ہی ہوگا،،،مجبوری کا بہانہ بناکر جانے سے معذرت کرلی،وہاں جو کچھ ہوا،ملاقات کے لیے کیسے انتظامات کیے گئے تھے،اور کس طرح وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے ملاقات سے پہلے صحافیوں سے حلف اٹھوایا گیا اور صرف 4 لوگوں کو بولنے کی اجازت دی گئی،،اور کافی باتوں کے بیان کے لیے طویل وقت چاہئیے۔۔

وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے ملاقات سے صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہونے والی ملاقات میں بھی ایک مرتبہ پھر صحافتی سیاست آڑے آگئی،،جان بوجھ کر مشترکہ صحافتی حقوق اور مفادات کو ایک صفحے پر لکھ کر مشترکہ دستخطوں سے وزیراعلی پنجاب کو پیش کرنا گوارا نہ کیا گیا،،آپ زبانی طور پر مشترکہ مطالبہ صحافتی کالونی کے گئے تھے تو معاملات کو سیاست زدہ کرنے کا مقصد کیا تھا؟صحافی کیا ایک ایکریڈیشن کارڈ کے بھوکے ہیں؟ جسے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار صاحب نے اپنے ہاتھوں سے صحافیوں کو دیکر ان پر احسان کیا؟ملاقات میں شامل چند دوست اب پھر معاملات کو سیاست زدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں،،ملاقات پر قیادت کا لیبل لگاکر کر،وزیراعلی کیساتھ تصاویر کو واضح کرکے انتظامی اور پولیس افسران کو یہ دکھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ کتنی بھیڑیں(صحافی) ہماری جھنڈ میں شامل ہیں،،اگر یہی معاملات ہی چلنے تھے تو مجھے خوشی ہے میں نے درست فیصلہ کیا اور ملاقات سے دستبرداری اختیار کی،،،یاد رکھیں ! بھیڑ میں شور ہوتا ہے،کام کی بات نہیں ہوسکتی۔۔(عدنان بھٹہ)۔۔

koi insan nahi | Javed Chaudhary
koi insan nahi | Javed Chaudhary
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں