تحریر: علی احمد ڈھلوں
ہر سال 23مارچ ملک کے لیے نمایاں خدمات پیش کرنے والوں کو سول اعزازات دیے جاتے ہیں،،، یہ ہر سال ہی متنازع حیثیت اختیار کرتے ہیں، کیوں کہ حکومت وقت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے من پسند افراد کو یہ اعزازات نوازے۔ اسی لیے ان ایوارڈز میں میرٹ بھی چلتا ہے، اور سفارش بھی۔ یعنی پاکستان میں سول ایوارڈزکی تقسیم پرہمیشہ سے ہی سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت اور انہی کی سابقہ حکومت (پی ڈی ایم) نے جس طرح کی لوٹ سیل لگائی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔اب ہوتا یہ ہے کہ چند افراد کو میرٹ پرایوارڈز دینے کا اعلان کیاجاتا ہے،، تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ محض خوشامدیوں کو نہیں نوازاگیا بلکہ میرٹ پر بھی ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔ مگر مجموعی طور پر اس بار سب ریکارڈ توڑ دیئے گئے۔تاثر تو یہ تھا کہ ن لیگ کو بہتر ترلوں منتوں کے بعد حکومت ملی ہے،،، جس کے بعد ماضی کے تجربات کی روشنی میں ان سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ میرٹ کی پاسداری کریں گے۔لیکن شہبازشریف نے یہ مغالطہ دورکردیا۔ان کے دونوں ادوار میں نہ صرف خوشامدیوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا بلکہ سول ایوارڈز کو بھی بے وقعت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
واضح رہے کہ ہمارے ہاں سول ایوارڈز آئین کے آرٹیکل 259(2)کے تحت صدر مملکت عطا کرتے ہیں مگر کسے ایوارڈدیا جائے گا یہ فیصلہ کیبنٹ ڈویژن کے زیر انتظام تشکیل دی گئی ایک کمیٹی کرتی ہے۔یعنی اچھے یا برے فیصلوں کی ذمہ داری حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے۔بالعموم یوم آزادی 14اگست کے موقع پر ایوارڈز دینے کا اعلان کیا جاتا ہے اور پھر یوم پاکستان یعنی 23مارچ کو ان شخصیات کو ایوارڈز دیئے جاتے ہیں۔ جب تحریک انصاف کی حکومت تھی تو 2019ء میں 116شخصیات کو ایوارڈز دینے کا اعلان کیا گیا، 2020ء میں 184افراد کو ایوارڈز سے نوازا گیا جبکہ 2021ء میں 126شخصیات کو سرکاری اعزازات دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یعنی تین سال کے دوران مجموعی طور پر 426 افراد کو ایوارڈز دیئے گئے مگر پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد 2022ء میں 225، 2023ء میں 696شخصیات کو ایوارڈز سے نوازا گیاجبکہ اس سال یعنی 2024ء میں 400کے قریب افراد کو ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ گویا 2016ء سے 2021ء تک 6سال میں 826ایوارڈز دیئے گئے مگرشہباز شریف کی دوحکومتوں نے 3سال میں ہی 1300سے زائد شخصیات کو ایوارڈز دے کر ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا۔اگر سول ایوارڈز کے حوالے سے ہمسایہ ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔بنگلہ دیش میں گزشتہ 8سال کے دوران صرف 314شخصیات کو ایوارڈز دیئے گئے۔بھارت جو آبادی کے حساب سے پاکستان سے بہت بڑا ملک ہے،وہاں 2014ء سے 2023ء تک 927سول ایوارڈ تقسیم کئے گئے مگر ہمارے ہاں 3 سال میں ہی 13سو سے زائد ایوارڈز بانٹ دیئے گئے۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سول ایوارڈز کی اس بے توقیری کے بعد قدآور علمی و ادبی شخصیات کی طرف سے بطور احتجاج بائیکاٹ کیوں نہیں کیا جاتا؟اس سال بھی جن شخصیات کو ایوارڈ دیے گئے اُن میں نمایاں شخصیات میں شیما کرمانی کا نام بھی شامل ہے۔ ان کے علاوہ پوفیسر عادل نجم، پروفیسر انور مسعود، اداکار عدنان صدیقی اور دیگر کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔لیکن پاکستان میں فلم اور آرٹ انڈسٹری کی ایک معروف شخصیت سرمد کھوسٹ کا نام اس فہرست سے نکال دیا گیا اور یہ معاملہ سوشل میڈیا پر صارفین کے لیے حیرت کا باعث بنا ہوا ہے۔پھر ان 4سو سے زائد افراد میں بیشتر حکمرانوں کے خوشامدیوں کا ٹولہ ہے۔ جیسے قوم اس بات پر حیران ہے کہ حاضر سروس آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ایسی کونسی خدمات سرانجام دیں کہ اُنہیں ایوارڈ دیا گیا،،، حالانکہ سب نے دیکھا کہ انہوں نے گزشتہ پورا سال چادر اور چار دیواری کا خیال نہیں رکھا،،،اور پورے ملک کو اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ اُن پر بے تحاشا الزامات ہیں لیکن کہیں کوئی میرٹ نہیں دکھایا گیا۔پھر سال بھرکرپشن کے الزامات میں جیل کاٹنے والے فواد حسن فواد کو بھی ایوارڈ سے نوازا گیا،،، ان کے علاوہ بھی بیشتر ایسے حاضر سروس بیوروکریٹ اور دیگر شخصیات ہیں،،، جنہیں عوام کے لیے نہیں بلکہ حکومت کے لیے اچھا کام کرنے پر ایوارڈز سے نوازا گیا۔ حالانکہ دنیا میں کہیں ایسے نہیں ہوتا کہ ایک شخص پر الزامات ہو ں اور حکومت اُسے تمغات سے نواز رہی ہو، اور ملزم کو اعزازات سے نوازنا اس ملک میں ہمیشہ مظلوم کو دباتا رہا ہے، کیوں کہ جوں جوں اعزازات ملتے ہیں ملزم مزید بااثر ہو جاتاہے۔۔۔ بہرحال یہ قومی اعزازات ہیں،،، ان کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ہے،، انہیں متنازع بنانے کے بجائے ان ایوارڈز کے حوالے سے میرٹ کو لازمی بحال کرنا چاہیے۔
چونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ان ایوارڈز کو ماضی میں ایسے لوگوں کو دیا جاتا تھا جن پر رشک کیا جاتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ ہم ان ایوارڈز کی بے توقیری کی طرف جا رہے ہیں۔ اس میں قصور جہاں حکومتوں کا ہے وہاں ان کے وصول کرنے والوں کا بھی ہے۔ یہ میری لاعلمی یا کم علمی ہو مگر ماضی قریب میں جن شخصیات کی طرف سے ایوارڈلینے سے انکار کیا گیا،انہیں انگلیوں کی پوروں پر گنا جا سکتا ہے۔بزعم خود فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور ہو یا پھر جنرل ضیاالحق کا زمانہ،اظہار رائے کی آزادی میسر نہیں رہی مگر صحافی،ادیب اور شاعر نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ان فوجی حکمرانوں سے تمغے وصول کرتے رہے۔سرائیکی شاعر اقبال سوکٹری اکلوتی شخصیت ہیں جنہوں نے فوجی حکمراں کے ہاتھوں تمغہ حسن کاکردگی لینے سے انکار کیا۔بینظیر بھٹو کے دور میں ضمیر نیازی نے اخبارات پر پابندی کے خلاف بطور احتجاج تمغہ حسن کاکردگی لینے سے معذرت کرلی۔احمد فراز نے جنرل پرویز مشرف سے ہلال امتیاز وصول تو کیا لیکن 2006ء میں بلوچستان میں فوجی مداخلت اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بطور احتجاج واپس کردیا۔شاید نسیم زہرہ اور زاہدہ حنا نے بھی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں تمغہ حسن کاکردگی لینے سے انکار کردیا تھا۔سندھی ادیب عطا محمد بھانبروجن کے بیٹے راجہ داہر جبری طور پر لاپتہ ہوگئے تھے،ان کے گم شدہ بیٹے کی لاش برآمد ہوئی تو انہوں نے تمغہ امتیاز لوٹا دیا۔ایک اور سندھی دانشور تاج جویو نے 15اگست 2020ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کاکردگی لینے سے انکار کردیا کیونکہ ان کے بیٹے سارنگ جویو کو11اگست کو یعنی ایوارڈ دینے کا اعلان کئے جانے سے تین دن پہلے نامعلوم افراد نے اغوا کرکے جبری طور پر لاپتہ کردیا۔معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کو ان کی وفات کے بعد 2020ء میں سول ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا تو ان کی بیٹی ویرتا علی اُجن نے صحافیوں اور ادیبوں کے خلاف ریاستی جبر ناروا کے خلاف بطور احتجاج یہ ایوارڈ لینے سے انکار کردیا۔انہوں نے کہا کہ اگر ان کی والدہ حیات ہوتیں تو وہ بھی یہی کرتیں کیونکہ انہوں نے ساری زندگی انصاف اور مساوات کے لئے جدوجہد کی۔ اس ضمن میں ایک اور مثال پرویز ہود بائی کی ہے۔2001ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے انہیں ستارہ امتیاز دینے کا اعلان کیا مگر انہوں نے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کردیا۔پرویز ہود بھائی وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے یہ کہہ کر ایوارڈ لینے سے انکار کیا کہ ان سول ایوارڈ کی نہ تو کوئی ساکھ ہے اور نہ ہی کوئی وقعت و اہمیت۔
میرا خیال ہے کہ یا تو اہل قلم ان سول ایوارڈز کی لوٹ سیل پر تنقید کرنا چھوڑ دیں یا پھر یہ طے کرلیں کہ جب تک ان تمغوں اور اعزازات کی تقسیم کا موزوں اور مناسب طریقہ کار طے نہیں کیا جاتا تب تک کوئی ادیب،دانشور،مورخ،محقق یا صحافی یہ ایوارڈ وصول نہیں کرے گا۔ یعنی قلمی مزاحمت کا راستہ اختیار کریں یا پھر مکمل مفاہمت کی دہلیز پر سجدہ ریز ہو جائیں۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی اس حوالے سے موجود ہے کہ وفاق ڈیکوریشن ایکٹ 1975 کے تحت ہونے والی نامزدگیوں کا معیار طے کرے،جسٹس جواد حسن نے اپنے فیصلے میں ایوارڈز دینے کے حوالے سے حکومت کو معیار طے کرنے کا کہا ہے۔
بہرکیف میں یہ نہیں کہتا کہ 2024کے سول ایوارڈز میں جن شخصیات پر اعتراض اُٹھایا جا رہا ہے وہ واقعی اعتراض کے قابل ہیں یا نہیں؟ ہمارے لیے تمام شخصیات ہی قابل احترام ہیں، تمام شخصیات ہی اچھا کام کر رہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ کاکام نظر آرہا ہوتا ہے اور کچھ دوست مروت ہی میں کام کیے جاتے ہیں جنہیں شاید شہرت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہوتا ہے کہ کون انعام کا حقدار ہے اور کون نہیں؟ لیکن حکومت سے اس حوالے سے استدعا ضرور کی جاسکتی ہے کہ ایوان صدر سے جاری ہونے والے ان اعزازات کا کوئی معیار مقرر کیا جائے۔ کسی کو یہ سوچ کر ایوارڈ دے دیا جاتا ہے کہ اس سے مستقبل میں کو ئی تخلیقی کام سر زد ہونے کا امکان ہے، حالاں کہ اِس بات کا کہیں امکان نہیں ہوتا، کچھ ایسے لوگوں کو بھی ایوارڈ دیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ایوارڈ کی توقیر میں ا ضافہ ہو تا ہے اور دو نمبر، غیر مستحق افراد خود کو اُن کے ساتھ بریکٹ ہو کر معزز محسوس کرتے ہیں۔کچھ حکومتی عہدوں پر ہونے کے سبب ایوارڈ پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں۔ کچھ اس لیے ایوارڈ حاصل کرتے ہیں کہ پتہ بھی تو چلے کہ وہ ادیب شاعر ہیں۔ کچھ ادبی سرپرست اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے اپنے چیلوں کو ایوارڈ دلوا کر احساس تفاخر میں ڈوب جاتے ہیں۔کچھ اپنے آپ کو اس لیے ایوارڈ دلوا لیتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ چلا کہ ان کی ایوانِ صدر میں واقفیت یا رشتہ داری ہے۔ لہٰذایوم پاکستان پر اس ایوارڈ کا احترام کیا جانا چاہیے تاکہ مستحق افراد ہی میں یہ ایوارڈ تقسیم ہو۔بلکہ اس حوالے حکمرانو ں سے یہ کام لے کر کسی تھنک ٹینک کے حوالے کر دینا چاہیے تاکہ کسی قسم کی دونمبری کا شائبہ ہی نہ رہے!