تحریر: علی احمد ڈھلوں۔۔
پاکستان میں سیلاب کو آئے ہوئے ڈیڑھ دو ماہ ہوچکے ہیں اور ابھی تک بحالی کا کام شروع نہیں ہوسکا۔ ایک منظم نظام موجود نہیں ہوگا تو موقع پرست لوگ آگے آئیں گے۔ ساڑھے تین کروڑ افراد میں سے ساڑھے تین لاکھ افراد بھی بحال نہیں ہوسکے۔
ہاں! کہیں کہیں نجی تنظیمیں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے پیش پیش نظر آرہی ہیں مگر سرکاری سطح پر ابھی تک ڈیٹا بھی اکٹھا نہیں کیا جاسکا کہ متاثرین میں کتنے خاندان، کتنے افراد اور کون کون سے گاؤں، قصبے یا شہر متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت شاہ لطیف کے سندھ کی بستیاں غرقاب ہیں۔ گوٹھ مٹ رہے ہیں۔ شہباز قلندر کی نگری کو منچھر کے پانی نے گھیر لیا ہے۔ سندھو ندی بپھری ہوئی ہے۔
کراچی،لاہور،حیدرآباد،پشاور،ملتان،کوئٹہ، سیالکوٹ اور نہ جانے کہاں کہاں ہمیںامدادی سامان سے بھرے اسٹال و کیمپ نظر آرہے ہیں۔ ایئرپورٹوں پر جہاز اتر رہے ہیں۔ اپنے اپنے ملکوں کے پرچموں کے نشان اوربڑے بڑے کنٹینر لیے۔ یہ نظارے دیکھ کر حوصلہ بڑھتا ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔ چارہ گری ہورہی ہے لیکن جب سیلاب زدگان کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔چاہے وہ جنوبی پنجاب ہو، بلوچستان، اندرون سندھ، خیبر پختونخوا۔ وہاں سے یہی صدائیں آتی ہیں۔’’ابھی تک کوئی نہیں آیا۔‘‘ قابلِ ستائش ہیں وہ اخباری، ٹی وی رپورٹر جو کتنی مشکلوں مصیبتوں سے ان دور دراز علاقوں میں پہنچ رہے ہیں۔
وہ خود بھی اپنے ان جفاکش ہم وطنوں کی بے چارگی، بے سرو سامانی دیکھ رہے ہیں۔ یہ رپورٹر، کیمرہ مین جب وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ تو حکومتیں یا امدادی سامان بانٹنے والی فلاحی تنظیمیں وہاں تک کیوں نہیں پہنچ پارہی ہیں۔ان تنظیموں کی جانب سے روزانہ رپورٹیں کیوں جاری نہیں کی جاتیں؟یہ سوال ہر اس پاکستانی یا سمندر پار پاکستانی کے ذہن میں تڑپ رہا ہے کہ وہ جو نقد رقم عطیہ کررہا ہے۔ امدادی سامان دے رہا ہے۔ دوائیں پہنچارہا ہے۔ وہ اس کے حقدار ہم وطنوں تک کیوں نہیں پہنچ رہیں؟
بہرکیف میں پھر یہی کہوں گا کہ حکومت ایک ایسا سسٹم بنائے جس پر دنیا اعتبار کرے، ایک ایسی ویب سائیٹ یا ڈیٹا بیس ترتیب دے جو دنیا کے ساتھ شیئر کیا جاسکے کہ 3کروڑ افراد میں سے اتنے افراد کی بحالی ہو چکی ہے اور کتنے رہ گئے ہیں۔
پھر اس پورٹل پر بتایا جائے کہ غذائی بحران پیدا ہونے والا ہے، اُس کے لیے دنیا سے گندم چاول کی اپیل کی جائے، کیوں کہ آج کل میں ہی ان علاقوں میں ایک بڑا مسئلہ غذائی بحران پیدا ہونے والا ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہمسایہ ممالک سے سبزیاں اور اناج منگوانے کی کاوشیں جاری ہیں جب کہ اندرون ملک وسیع رقبہ زیر آب آنے کے باعث نئی فصلوں کے لیے زمین کی مطلوب دستیابی بھی توجہ طلب ہے۔
اس منظر نامے میں گلوبل فلاحی ادارے عالمی برادری کے زیادہ موثر،فوری اور سرگرم کردار کی ضرورت اجاگر کر رہے ہیں۔جب کہ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً دو کروڑ 10لاکھ ایکڑ اراضی زیرآب ہے اور ایک اندازے کے مطابق ملکی فوڈ باسکٹ یعنی چاول اور گیہوں جیسی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ 7لاکھ 33ہزار سے زائد مویشیوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔
لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور حکومت ان علاقوں میں بڑے بڑے ریلیف کیمپ آفسز بنائے جہاں ان متاثرہ افراد کو رجسٹر ڈکیا جائے تاکہ امداد صحیح انداز میں صحیح لوگوں تک پہنچ سکے ورنہ یہ سب بھوک، عزت اور شرم سے مرجائیں گے۔۔(بشکریہ ایکسپریس نیوز)