تحریر: جاوید صدیقی۔۔
میں جاوید صدیقی ایگزیکٹو ممبر دستور گروپ کراچی وقتاً فوقتاً صحافیوں کے مسائل پر لکھتا چلا آرہا ھوں لیکن ایسا لگتا ھے کہ سب ذمہ داروں کو بیدار کرنے کیلئے مزید لکھ کر جگانا پڑیگا کیونکہ انسان سو کر جلد اٹھ سکتا ھے مگر ضمیر کو بیدار کرنے میں مزید وقت لگے گا۔ میرے والد سردار حسین صدیقی مرحوم ” علیگیرین ” مجھے نصیحت کرتے ھوئے کہا کرتے تھے ” بھلے مانس کیلئے ایک بات اور بھلے گھوڑے کیلئے ایک چابک ” اب دیکھنا یہ ھے کہ ھمارے وزراء و مشیر اور یوجیز و پریس کلبس کے عہدیدران بھلے مانس ہیں کہ نہیں۔۔۔۔۔۔
معزز قارئین!! وفاق سمیت صوبائی حکومتیں سالانہ گرانٹ پاکستان بھر کی بلعموم یوجیز اور بلخصوص پریس کلبس کو دیتی چلی آرہی ہیں وقت کیساتھ ساتھ ان گرانٹ میں اضافہ بھی ہوتا آرہا ھے لیکن متاثرین صحافی پر عدم توجہ کی وجہ سے وہ تاحال متاثر ہی ہیں۔ ملک بھر کی یوجیز ھوں یا پریس کلبس ایسے اقدامات سے گریزکرتی رہی ہیں جن سے فی الفور مثبت نتیجہ برآمد ھوسکے۔ پہلے بھی لکھ چکا ھوں کہ احتجاج اور ریلی مسائل کا حل نہیں۔ میری یہاں توجہ ملک بھر کے تمام یوجیز اور پریس کلبس کے عہدیدران و ذمہ داران سے ھے کہ تقریباً دو سال سے زائد عرصہ بیت گیا ھے اےآروائی۔ جیو۔ ایکسپریس۔ سما۔ دنیا۔ ڈان۔ آج۔ ابتک۔ ھم۔ پبلک نیوز۔ بول۔ نیوز ون۔ جی این این۔ جی ٹی وی۔ کیپیٹل نیوزسمیت کئی چینلز کے مالکان نے مشترکہ طور ڈاؤن سائزنگ کا ڈرامہ رچاکر خسارہ ظاہر کرتے ھوئے کئی ہزار صحافیوں کا معاشی قتل کرڈالا اور اس پر ان کی وڈیو بناکر تمسخر اڑاتے رہے کہ دیکھو یہ ہیں صحافی آج اپنا مجبوراً پیشہ چھوڑ کر کوئی آلو چھولے بیچ رہا ھے تو کوئی سبزی تو کوئی چپس تو کوئی بریانی گوکہ اس بابت آپ یوجیز اور کلبس عہدیداران کی جانب سے ردعمل نہیں آیا۔
موجودہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اس بابت ان مالکان کی سرزنش تک نہیں کی بلکہ ڈرتے رہے کہ کہیں یہ مالکان انہیں بلیک میل کرکے رسوا نہ کردیں تو میرے پاکستان کے سیاست دانوں و اشرافیہ ایسے کام ہی کیوں کرتے ھو جو رسوائی کا سبب بنے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ ریاستِ پاکستان سب سے زیادہ مقدم و محترم ھے تو پھر حکومتی رٹ دکھائیں اور ان سب میڈیا انڈسٹریز کے مالکان سمیت ملک بھر کی یوجیز اور پریس کلبس کا بھی احتساب اور آڈٹ کے نیچے لے آئیں کیاآپ بااختیار وزراءومشیران ایسا کرسکتے ہیں نہیں تو آپ سب وفاق اور صوبائی حکومتوں میں رہنے کا اخلاقی جواز ہی کھو بیٹھے ہیں۔۔۔۔
سب سے پہلے میں وزیراعظم عمران خان صاحب کو واضع کرتا چلوں کہ جن اینکروں کو آپ پاس بٹھاتے ہیں ایک تو وہ صحافی نہیں، دوسرا انہیں میڈیا ملازمین کے مسائل سے قطعی دلچسپی نہیں رہے ایک آدھ صحافیوں کے وہ اپنا ضمیر مالکان کے ہاتھوں فروخت کرچکے ہیں آپ وزیراعظم ہیں آپ کے ماتحت اداروں کی لمبی قطاریں ہیں لگادیں میڈیا مالکان ۔اینکروں اور تمام یوجیز۔ پریس کلبس کے عہدیداران سمیت صحافیوں کے اثاثوں کی تحقیقات میں پھر دیکھئے گا کہ کون کون مخلص ھیں اس وطن سے اور کون کون ھیں دولت کی ہوس میں اور کہاں کہاں تک ان کی سرگرمیاں پائی جاتی ہیں۔ یقیناً منافقوں کی منافقت’ جھوٹوں کے جھوٹ سامنے آجائیں گے۔ پیمرا میں کالی بھیڑوں کا خاتمہ پہلی فرصت میں کریں کیونکہ پیمرا کے بااختیاروں کی خاموشی عدم توجہی کی بناء پر مالکان کے غیر قانونی سرگرمیاں جاری رہیں۔ بناء پیمرا کو نوٹس لائے اور حکومت کو وضاحت دیئے بغیر اس بڑے پیمانے پر معاشی قتل ریاست پاکستان پر سوالیہ نشان ڈال چکی ھے۔ جیو کے مالک سپریم کورٹ میں کہہ چکے تھے کہ یہ میرا دھندا ھے۔مجھے صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔ اےآروئی کے سلمان اقبال کہے بغیر دھندے پر دھندا پی سی ایل کے بعد اربوں کا پروجیکٹ اےآروئی لاگونا یہی نہیں سب کے سب چینلز مالکان نے ریاستِ پاکستان کو کھلونا بنایا ھوا ھے اور دھندے پر دھندا کیئے جارھے ہیں کیونکہ انہیں نہ کوئی پوچھنے والا نہ کوئی ٹوکنے والا زیادہ بولے تو ملک ریاض کی طرح منہ میں لڈو ورنہ تشدد۔۔
دنیا بھر میں میڈیا موجود ھے جس کی سخت نگرانی ریاست کرتی ھے یہی وجہ ھے کہ وہاں میڈیا پروفیشنل ازم پر قائم ھےجبکہ پاکستان کامیڈیا سیٹھ ازم اور گھناؤنی مافیا بن چکاھے۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب کہہ چکے ہیں کہ وہ اور افواج پاکستان کے تمام ادارے آئین اور ریاست کیساتھ کھڑے ہیں اور ہر دہشتگردی بشمول مالی دہشتگردی کا قلع قمع کرکے چھوڑیں گے۔ ہمارے محترم چیف صاحب تو میڈیا کو کیوں مادر پدر آزاد چھوڑ رکھا ھے۔؟؟ یہی حال سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کا ھے کہ وہ میڈیا انڈسٹری کا احتساب اور محاسبہ کرتے ھوئے گھبراتے ہیں اور انکے خلاف نہ کوئی نوٹس نہ کوئی جواب طلبی۔۔۔۔۔۔
معزز قارئین!! میرا کالم لکھنے کا مقصد ان صاحبِ مختیار لوگوں کیلئے بیداری ھے جو ذمہ دار ہیں اور بااختیار بھی ہیں انہیں چاہئے کہ سب سے پہلے متاثرین کے بچوں کی تعلیمی اخراجات کو فی الفور ہنگامی بنیادوں پر حل کریں پھر صحت اور جاب کے حوالے سے۔ امید ھے کہ ملک بھر کی یوجیز اور پریس کلبس کے عہدیداران و ذمہ داران حکومتی گرانٹ سے ان مسائل کے تدارک کیلئے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں گے کیونکہ صحافیوں کے مسائل انہی عہدیداران کی ذمہ داریاں بھی ہیں ھم آزادی صحافت کیلئے تو یکجا ھوجاتے ہیں تو صحافیوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کیوں نہیں’ صحافی ھوگا تو صحافت ھوگی۔۔(جاوید صدیقی)۔۔