کچھ پاکستانی صحافیوں کو خیبر پختونخوا کے شمالی علاقے میں ایک ممنوعہ تنظیم کے ساتھ مبینہ تعلق کے باعث مشتبہ قرار دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی صحافیوں کی فیڈریشن آئی ایف جےاور اس کی شراکت دار، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے میڈیا کارکنوں کے خلاف قوانین کے غلط استعمال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحافیوں کے خلاف تحقیقات ختم کرے جو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کر رہے ہیں۔صحافی احسان نسیم کو 6 اکتوبر کو عوامی نظم و ضبط کے قوانین کے تحت درج کیے گئے الزامات کے بعد گرفتار کیا گیا۔7 اکتوبر کو سینئر صحافیوں فاروق محسود، اشتیاق محسود، اور محمد اسلم کو نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے فورتھ شیڈول کی فہرست میں شامل کیا گیا، انہیں ‘ممنوع افراد کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے کیونکہ ان پر پشتون تحفظ تحریک ( پی ٹی ایم) کی حمایت کا الزام ہے جسے چھ اکتوبر کو بین کیاگیا تھا۔۔ ان صحافیوں کو اپنی ذاتی آزادیوں میں خاطر خواہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ یہ لیبل حکام کو مالی، سفری، اور دیگر رکاوٹیں عائد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم عوامی نظم و سلامتی کیلئے بڑا خطرہ ہے اور وہ صحافی جنہیں فورتھ شیڈول میں شامل کیاگیا انہیں دہشت گردی کی سرگرمیوں کے حمایتی یا سہولت کار کے طور پر نشان زد کیاگیا ہے۔ایک اور واقعہ میں بٹگرام کے صحافی احسان کو ایم پی او کے تحت گرفتار کیاگیا ہے کیوں کہ انہوں نے ستمبر میں پی ٹی ایم کے سربراہ کا انٹرویو کیا تھا۔۔