تحریر : عبدالقادر غوری
یار کوئی سفید پوش مستحق نظر میں ہو تو بتانا ۔ آپ اتنی اچھی جگہ نوکری کرتے ہو آپ کو تو ایسے لوگ ملتے ہونگے جو ضرورت پڑھنے پر بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔ میں نہیں چاہتا کسی حق دار کا کسی پروفیشنل بھکاری کے ہاتھ میں پہنچ جائے ۔یہ بات وہ اُس میڈیا ورکر سے کہہ رہا تھا جس کو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔۔گھر کا کرایہ اور پرچون والے کا قرضہ سر پر چڑھا تھا ۔ بل نہ بھرنے پر گھر کی بجلی کٹ چکی تھی پڑوسی نے آدھے آدھے کی شرط پر دو پنکھے دو ٹیوب لائٹس کی بجلی دے رکھی تھی ۔ بچوں کا اسکول جانا بند ہوگیا تھا اور ماں باپ اُسے اپنا اور دو کنوری بہنوں کا آخری آسرا سمجھتے ہیں۔۔ اس سب کے باوجود اس نے جواب دیا، کیوں نہیں جناب اگر کوئی سفید پوش مستحق نظر آیا تو ضرور بتاؤں گا اچھا ہے کسی مستحق تک اس کا حق پہنچے ۔۔اور پھر وہ پیدل ہی آنکھوں میں نمی لیے اپنے گھر کی جانب چل پڑا جہاں بچوں نے اُس عید کے کپڑوں کا، ماں باپ نے دواؤں کا، بہنوں نے تو کوئی بات ہی نہیں کرنی ہاں البتہ بیوی نے یہ ضرور پوچھنا تھا ” کیا تنخواہ ملی اگر نہیں تو پھر کہیں اور سے پیسوں کا بندوبست کرو اب تو میرے سگے بھائیوں نے بھی انکار کردیا ہے۔
میں نے پوچھا تونے اُسے خود کے بارے میں کیوں نہیں کہا ،اس وقت تو تیرے حالات بھی بہت ٹائٹ چل رہے ہیں؟؟اُس نے جواب دیا : چھوڑنا یار ایک تو اس نے مزاق ہی بنانا ہے ۔ دوسرا اگر دوست ہے تو اسے خود پتا ہونا چاہیے اور تیسرا اگر اس نے مدد کر بھی دی تو میرے سارے خاندان رشتے دار،دوست احباب تک کو بہانے بہانے سے بتادیے۔۔چوتھا میں اس کی اور جس جس کو یہ بتائے گا سب کی نظروں میں ہمیشہ کے لیے گر جاؤں گا ۔ ایسی مدد سے تو بھائی موت اچھی ہوتی ہے۔۔میں نے کہا ،یاریہ تو تیرا کولیگ ہے نا مالکان کا لاڈلا لاکھوں میں تنخواہ ہے یہ بھی تیرے ساتھ ایسا کرسکتا ہے یقین نہیں ہوتا؟ بولا ساتھ کام کرتا ہے، اسی لیے تو میں جانتا ہوں بلکہ کئی لوگوں کے بارے میں ہمیں ہنس ہنس کر بتا چکا ہے تو کیا میرے بارے میں دوسروں کو نہیں بتائے گا ۔۔
بھائی سیف پبلسٹی کا دور ہے ۔۔بات تو اُس کی بھی ٹھیک تھی ۔۔میڈیا کی جاب ایک پُرکشش جاب سمجھی جاتی ہے ۔ یہ مال وہ مال کارڈ کی بدمعاشی بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات ہوتے ہیں ۔ لوگ اُسے باعزت اور مالدار بلکہ دینے والا سمجھنے لگتے ہیں ۔ چند سال پہلے ایسا تھا بھی لیکن گزشتہ دو تین سال میں میڈیا مالکان نے اپنی اوقات دکھانا شروع کردی ہیں۔۔ٹی وی پر چلاتے ہیں کہ ” مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کرو ” لیکن خود ہی غریب اور کم تنخواؤں والے ملازمین کی تنخوائیں کھا جاتے ہیں ان کا اپنا کوئی کام نہیں رکتا ۔ خود کو پریشان ظاہر کرنے والے مالکان نے حال ہی میں تین تین چار چار نئے چینلوں کو لائسنس اربوں میں خریدے ہیں۔۔
پیمرا کے اپنے مسائل ہیں سپریم کورٹ مالکان کے سامنے بے بس ہے، حکومت اور اپوزیشن بھی اس مسئلے میں کچھ نہیں بول سکتی کیوں کہ سیاستدان میڈیا مالکان سے یا تو بلیک میل ہے یا پھر اسے کوریج چاہیے ۔ صحافی تنظیموں میں ایکا نہیں ہے ۔اب تو یہ عالم ہے کہ بڑے چینلز کے نچلے ورکرز کو افطاری کی تلاش میں روز شام کو دربدر پھیرتا دیکھتا ہوں، کبھی کس دسترخوان پر کبھی مسجد میں تو کبھی سڑک کنارے کروائی جانے والی افطاری پر ۔ ایسے میں عید منانا تو دور کی بات روز پیٹ بھر کر کھانا کھانا مشکل ہوگیا ہے سوائے چالاک افراد کے جو مالک کی آواز سے آواز ملا کر پیسے نا ہونے کا رونا روتے ہیں جبکہ انہیں ضرورت سے زیادہ مل رہا ہے ۔۔روتے اس لیے ہیں کہ کوئی ضرورت مند مانگ نہ لے ۔۔مالکان اس میڈیا بحران سے خوش ہیں ۔ ڈاؤن سائزنگ میں الگ لگے ہیں بنا پیشگی اطلاع کے ورکرز اور صحافیوں کو نکالا جارہا ہے ۔۔
جبکہ آج ایسے سیکڑوں لوگ موجود ہیں جو میڈیا مالکان کی وجہ سے قرضوں اور فاقوں میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔ نوکری چھوڑ نہیں سکتے کہ اس کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا دوسرا نوکری چھوڑنے کا مطلب ہے اپنے تین ماہ کی مزدوری سے ہاتھ دھونا جس میں سے ایک آدھ میڈیا تنظیموں کے احتجاج سے کبھی نا کبھی مل ہی جانی ہے اور پھر چار پانچ صحافی تنظیمیں کئی دنوں تک اُس کا کریڈٹ لیتی رہیں گی ۔میرا ہمیشہ سے کہنا ہے کہ ” اگر آپ دوست ہیں تو دوست کے بنا کہیے اُس کے حالات کا علم ہونا چاہیے ۔ اگر آپ پڑوسی ہیں تو پڑوسی کے بنا کہے اُس کے حالات کا علم ہونا چاہیے اور اگر آپ خدا ہیں تو پھر بندے کے مانگے بنا آپ کو دے دینا چاہیے ۔
طالب کی تلاش بھی نا دینے کا ایک بہانہ ہوتا ہے ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک لاکھ زکات دینی ہوتی ہے تو وہ الگ الگ سو لوگوں کو ہزار ہزار تقسیم کردیتا ہے حالانکہ ایک لاکھ میں ایک یا دو مستحقین کے کئی بڑے مسائل حل ہوجاتے ہیں ۔ اللّہ سب کو دلوں کا حال دیکھنے والی نظریں عطا فرمائے ۔ آمین ۔(عبدلقادرغوری)