تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، نجانے کیوں جب بھی ہم اتوار کے دن کے لئے اپنی تحریر،یعنی اوٹ پٹانگ باتیں( جسے آپ اب تک شاید ’’کالم‘‘ ہی سمجھتے رہے ہیں) لکھتے ہیں تو ہمارا دل کرتا ہے کہ بس اس میں کوئی سنجیدہ بات نہ ہو، کوئی نصیحت نہ ہو۔۔بس سطر سطر مسکراہٹیں ہوں ، ایسی باتیں کریں جس سے آپ کا موڈ فریش ہوجائے اور دن بھی خوشگوار گزرے۔۔ اتوار کو چونکہ دفاتر جانے والے اور جاب کرنے والوں کی بڑی تعداد چھٹی انجوائے کرتی ہے اسی لئے ہم بھی اس انجوائے منٹ میں اپنا حصہ ڈالنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں، اب اس کوشش میں ہم کہاں تک کامیاب رہتے ہیں اس کا اندازہ تو ہم نہیں لگا سکتے۔۔ لیکن آپ لوگوں کا فیڈبیک بتاتا ہے کہ آپ لوگ اب ہماری اوٹ پٹانگ باتوں کو انجوائے کرنے لگے ہیں اور منتظر رہتے ہیں کہ ہم اپنی ’’شُرلیاں‘‘ چھوڑتے رہیں۔۔ چلیں باتیں بہت ہوگئیں، زیادہ دیر ہم سے سنجیدہ نہیں رہا جاتا، سنجیدگی زیادہ ہوجائے تو معدے پر اثر کرتی ہے اور پھر پیٹ سے ’’کُوں،کُوں‘‘ کی آوازیں آتی ہیں۔۔
ہمارے پیارے دوست کل رات ہمیں بتارہے تھے کہ ۔۔صبح میں والدہ کے پاس گیا اور کہنے لگا ،ماں جی میں نے اگر کبھی آپ کو پریشان کیا ہو مجھے معاف کر دینا اور میرے لئے دعا کرنا۔۔ ماں نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا۔۔ اللہ خیر کرے بیٹا کیا ہو گیا ایسے کیوں کہہ رہے ہو؟؟ میں نے شدید خوف کے لہجے میں کہا، ماں جی گیس نہ ہونے کی وجہ سے گیزر بند ہے اور میں نہانے جا رہا ہوں۔۔معروف سفرنگار اورنامور رائٹر مستنصرحسین تارڑ فرماتے ہیں۔۔ہم اردو ادب کے اس دور سے گزر رہے ہیں،جہاں اردو کے کسی لفظ کا مطلب سمجھانے کے لئے اْس کی انگریزی بتانا پڑتی ہے۔۔لوگوں کو سمجھ نہیں آتی وہ کہہ کیا رہے ہیں۔۔ اس کی مثال یوں لے لیں کہ ہم نے ٹی وی پر ایک اشتہار دیکھا۔۔بتایاجارہا تھا ۔۔یہ ہے چائے والا بسکٹ۔۔باباجی ساتھ ہی بیٹھے تھے، حیرت سے پوچھنے لگے۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اتنے سال سے ہم لوگ جو بسکٹ کھارہے تھے وہ پیپسی اور کوکاکولا کے ساتھ کھانے والے تھے؟؟؟
بات باباجی کی ہورہی تھی تو ایک دن وہ گھر میں داخل ہوئے تھے تو دیکھا کہ ان کی زوجہ ماجدہ چہرے پر کچھ مل کر صوفے پر نیم دراز ہیں، انہوں نے پوچھا۔۔ یہ منہ پرکیا لگارکھاہے ؟ بیگم نے جواب دیا۔۔دہی میں شہد،انڈے کی سفیدی اورخمیرہ ملاکرلگایاہے۔۔باباجی نے بڑی معصومیت سے کہا۔۔ اللہ کی شان ہے ،میری غذا تم نے دال مقرر کررکھی ہے اور اپنے چہرے پر یہ عیاشیاں کررہی ہو۔۔ویسے یہ بات بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ اگر ساری بددعائیں قبول ہوتیں تو آج پاکستان میں نہ تو کوئی ساس زندہ ہوتی اور نہ ہی کوئی بہو۔۔باباجی نے ایک بار اپنی زوجہ ماجدہ کو ہیرے کی قیمتی انگوٹھی لاکر دی اور ساتھ ہی یہ قسم بھی دی کہ کسی کو دکھانی نہیں۔۔بیگم نے اسے واپس کرتے ہوئے کہا۔۔ پھر کیا فائدہ؟؟ باباجی نے اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز بتاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ۔۔میاں بیوی کو مْحبت میں اضافے کیلئے ایک دوسرے کی تعریف کرنی چاہیے لیکن واضح رہے کہ اس دوران اپنی اپنی ہنسی پرمکمل قابورکھنا ہے۔۔
بات ’’بیگم‘‘ کی ہورہی تھی تو ایک بار ہم نے غلطی سے ’’گوگل‘‘ پر پوچھ لیا، ایک پاکستانی بیوی اپنے شوہرسے کیا چاہتی ہے؟؟ یقین مانیں آج دو ہفتے ہوگئے،گوگل کے نوٹی فکیشن روز آرہے ہیں۔۔ایک تحقیق کے مطابق زیادہ تر مردوں نے ’’ ٹیچرز ڈے‘‘ پر اپنی بیوی کو ہی پھو ل پیش کئے ہیں کیونکہ اْن کہ خیال میں زندگی میں سب سے زیادہ لیکچرز اسی کے سْنے ہیں ۔۔آپ کوشاید کبھی بتایا ہوہم نے کہ باباجی بسلسلہ روزگار تین سال سعودی عرب میں بھی قیام پذیر رہے ہیں۔۔ جب وہ جاب ختم کرکے واپس پاکستان آئے تو ان کی زوجہ ماجدہ فل تیارشیار ہوکران کے پاس آئیں اور بڑی لگاوٹ سے کہا۔۔آپ میری عربی میں تعریف کریں۔۔باباجی نے ترنت کہا۔۔ استغفر اللہ۔۔۔باباجی نے سعودی عرب میں قیام کے دنوںکا ایک دلچسپ واقعہ بھی ہم سے شیئر کیا۔۔بتانے لگے کہ۔۔ ہم ایک بار سرعام تمباکو چبارہے تھے کہ ’’شرطے‘‘ (پولیس اہلکار) نے پکڑلیا اور کہنے لگا۔۔ ہذا تال ان تمباکو منت اسش ان اکھجار۔۔ باباجی روتے ہوئے پولیس والے کے گلے لگ گئے اور بولے۔۔ مجھے آج پتہ چلا کہ تمباکو کھانے کی بھی عربی میں دعا ہوتی ہے۔۔
آج کل کے اخباروں میں، تاریخ اوردن کے سوا کچھ بھی سچ نہیں ہوتا۔۔دیکھنے میں آیا ہے پاکستانی گھرانوں کہ بچے جب بھی نانی کے گھر سے ہو کر آتے ہیں تو دادی کو کمزور ہی لگتے ہیں۔باباجی فرماتے ہیں کہ اگر چھوٹا بچہ دن کو آرام سے سو رہا ہو تو سمجھ جائیں وہ آپ کی رات کی نیند حرام کرنے کے لیے’’ چارجنگ ‘‘پہ لگا ہوا ہے۔۔لیکن یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ عورت میں نہ تو سیل ڈلتے ہیں اور نہ ہی بجلی پہ چلتی ہے پھر بھی کتنا بولتی ہے۔باباجی نے کئی روز کی ریسرچ کے بعد ہمیں بتایاکہ۔۔ دنیا میں جوس نکالنے والی چیزوں میں سے سب سے زیادہ جوس پاکستان میں مرغی کا نکالا جاتا ہے۔۔انہوں نے ہی یہ انکشاف بھی کیا کہ جدید تحقیق سے ثابت ہوا کہ کراچی والوں کی پان کی پچکاری ایران کے میزائل سے زیادہ ہے۔۔باباجی نے مطالبہ کیا ہے کہ۔۔عورتوں کے لئے ایسی گاڑیاں بنائی جائیں جس میں چیخ مارنے سے بریکیں لگتی ہوں۔۔
اس بات کو بھی آزمالینا کہ۔۔ہمارے ملک میں اپنی بات مخالفین تک بروقت اور پوری پہنچانے کے لیئے کئی دفعہ خود چل کر’’چغل خوروں‘‘ کے پاس جانا پڑتا ہے۔۔ایک کفن فروش نے خریدار کو دو کفن دکھائے اور بولا کہ یہ پہلا والا ایک ہزار جبکہ دوسرا والا پانچ ہزار کا ہے، خریدار نے استفسار کیا کہ دوسرا والا اتنا مہنگا کیوں؟؟تو کفن فروش بولا ’’ایدے تے کدی بْر نہ آئے گی‘‘۔۔آج کل سردی کا راج ہے، رات سوتے وقت بندہ جتنا بھی رضائی میں گھس کر یا پیک ہوکر سوئے لیکن پھر بھی لگتایہی ہے کہ جیسے ہوااندر آرہی ہے۔۔ ایسے لوگوں کے لئے باباجی نے زبردست نسخہ تجویز کیا ہے۔۔ وہ کہتے ہیں۔۔رضائی اوڑھنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ فرض کر لیں کہ باہر’’فائرنگ‘‘ ہو رہی ہے۔۔باباجی نے جب سنا کہ خان صاحب فرمارہے ہیں سکون صرف قبر میں ہے، تو ہمارے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولے۔۔یار اب تو کسی کو یہ دعا بھی نہیں دے سکتے کہ ’’ اللہ آپ کو سکون عطا کرے‘‘۔۔اگر کسی کو یہ دعا دے دی تو کہیں وہ اس کا غلط مطلب ہی نہ نکال لے۔۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔مسکرانا بھی ایک صدقہ ہے، چلتے پھرتے صدقہ دیتے رہیں نیکیاں سمیٹتے رہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔