shartiya meetha | Imran Junior

مرشد مشروب

علی عمران جونیئر

دوستو،اشرف المشروبات یعنی ”چائے” واجب الاحترام ہے کیونکہ یہ مشروب کی مرشد ہے۔ اس لیے تو سیانے کہتے ہیں کہ چائے باقاعدگی سے پیا کرو اس سے غم برداشت کرنے کی قوت بڑھتی ہے۔اسی قول پر عمل کرتے ہوئے پاکستانی رواں مالی سال کے 6 ماہ میں 96 ارب 49 کروڑ روپے سے زائد کی چائے پی گئے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ میں چائے کی درآمد میں ریکارڈ اضافہ سامنے آیا ہے، جس میں پاکستانیوں نے 96 ارب 49 کروڑ روپے سے زائد کی رقم چائے پر خرچ کر دی۔دستاویزات میں کہا گیا کہ رواں مالی سال چائے کی درآمد میں 35 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصے میں 71 ارب 10 کروڑ روپے سے زائد کی چائے درآمد کی گئی تھی۔دستاویزات کے مطابق گزشتہ ماہ دسمبر میں 16 ارب 67 کروڑ روپے سے زائد کی چائے درآمد کی گئی جبکہ نومبر میں 15 ارب 30 کروڑ روپے کی چائے درآمد کی گئی ہے۔واضح رہے کہ دسمبر 2022 میں 15 ارب 90 کروڑ روپے کی چائے درآمد کی گئی تھی۔

جس طرح سیاست میں جو مقام ”اسٹیبلشمنٹ”کو حاصل ہے، اسی طرح مشروبات میں وہی مقام ”چائے” کو حاصل ہے۔سردموسم میں تو اس کی طلب میں دگنا اضافہ ہوجاتا ہے، ویسے یہ دلچسپ مگر حیرت انگیز بات ہے کہ ہمیں موسم گرما میں چائے کی زیادہ طلب ہوتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے ذہن میں بچپن سے یہ بیٹھا ہوا ہے کہ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے، اسی طرح گرمی سے دور رہنے کے لئے گرم مشروب پینا ازحد ضروری ہے۔ ہمارے کچھ دوست موسم سرما میں آئس کریم کا استعمال بڑھا دیتے ہیں، شاید انہوں نے بھی لوہے والی مثال سن رکھی ہو۔ ہم دسمبر کے آخری عشرے میں لاہور گئے تھے، دھند، اندھادھند تھی، صبح د س، گیارہ بجے سے دوپہر تین چار بجے تک روشنی دکھائی دیتی تھی اس کے بعد ہر جانب اندھیرے کا راج ہوتا تھا۔وہاں بھی ہمارے ایک دوست باربار ہمیں آئس کریم کھانے کی ترغیب دے رہے تھے۔سردیوں میں آئس کریم کے فیوض و برکات پر مسلسل روشنی ڈال رہے تھے، لیکن ہم تو پہلے ہی ذہن بناکرگئے تھے کہ ”لاہوریوں” کی باتوں میں نہیں آنا۔ہاں یہ ضرور ہوا کہ شملہ پہاڑی پر واقع لاہور پریس کلب میں ہمیں وہاں کے صحافیوں نے اسپیشل قہوہ پلایا، جس میں سونف اور پودینے کی مقدار بہت زیادہ تھی۔ ہمیں چونکہ ہلکی پھلکی کھانسی بھی تھی اور سینہ پورا ”انفیکشن” سے متاثر تھا، اس قہوے کو پی کر محسوس ہوا کہ آرام مل گیا۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں چونکہ اسکول کی چھٹیاں تھی، اس لئے لاہوری بچوں کے ہمراہ ”مری” جانے کے لئے ”مری” جارہے تھے۔ٹھوکر نیاز بیگ اور نیازی اڈے پر ہزاروںلوگوں کا ہجوم دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ بسوں کے ٹکٹ فری بٹ رہے ہیں۔ مری کا جب ذکر آتا ہے ہمیں وہاں کے مقامیوں کی چالاکیاں بہت ستاتی ہیں۔ایک سیاح کو مری کی روڈ پرڈھکن لگی خالی بوتل ملی۔سیاح حیران

ہوا کہ خالی بوتل اور وہ بھی ڈھکن بند۔ اُس نے فوراً بوتل کا ڈھکن کھولا تو بہت سارا دھواں نکلا کہ کچھ بھی نظر نا آیا پھر آواز آئی۔۔ہو ہو ہو ہاہاہا۔۔سیاح نے دیکھا تو سہم گیا کہ ایک جن اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔سیاح نے بوتل کے جن کو آزاد کرنے والی بہت سی کہانیاں پڑھ رکھی تھی وہ سمجھ گیا کہ یہ میں نے جن کو آزاد کردیا ہے۔۔اب سیاح کو حوصلہ ہوا اور بولا۔۔ جن بابا میں نے آپکو آزاد کیا ہے اب تم مجھے مری کی مفت سیر کراؤ۔۔جن نے ھو ھو ھا ھا بند کی اور سیاح کو گھورنے لگا پھر بولا۔۔ اوئے نادان سیاح! میں مری کا جن ہوں جہاں بندر کو کیلا کھلاؤ تو کوئی نہ کوئی مری والا بھاگا ہوا آتا ہے کہ یہ ہمارے علاقے کا بندر ہے تم نے اس کو کیلا کھلایا اب مجھے پیسے دو۔۔ اے ناسمجھ سیاح تو مجھ سے مفت سیر کی فرمائش کرتا ہے،تجھے کیا پتہ ان مری والوں کے ہاتھوں میں جن بھی بے بس ہیں۔۔مجھے مری کے ہی ایک بندے نے قید رکھا ہوا ہے ۔۔وہ مجھے روز بوتل میں بند کرکے سڑک کنارے پھینک دیتا ہے اور پہاڑی کے پیچھے بیٹھ جاتا ہے۔۔پھر کوئی بھولا سیاح ڈھکن کھولتا ہے۔۔تو میں باہر نکل آتا ہوں تب وہ پہاڑسے بھاگتا ہوا آتا ہے اور سیاح سے کہتا ہے۔۔توں مہاڑا جن بوتل چوں کڈی چھوڑیا،کڈ ہزار روپیہ۔۔

ذکرہورہا تھا چائے کا۔۔چائے کے شوقین خواتین و حضرات جب بھی کہیں جاتے ہیں تو ٹھنڈے کے بجائے گرم گرم چائے کو ہی فوقیت دیتے ہیں اور چائے میں اگر الائچی بھی ہو تو کیا ہی بات ہے۔۔لیکن تحقیق سے ثابت ہوا کہ جب کسی کے گھر جائیں تو الائچی والی چائے ہرگز نہ پیئں کیونکہ خواتین الائچی منہ میں ڈال کر کھولتی ہیں اور چائے میں ڈالتی ہیں۔اس تحقیق کے بعد بہت سے لوگوں نے الائچی والی چائے پینا چھوڑ دی ،خاص طور پہ جب کہیں مہمان بن کر جاتے ہیں تب تو ہرگز نہیں پیتے۔اب جیسے کہ سردیاں ہیں تو لوگ چائے کے ساتھ ابلے ہوئے انڈے کھا کر سردی کی شدت کو کم کرتے ہیں۔۔کہیں مہمان بن کر چلے جائیں تو بس دل میں یہی خواہش ہوتی ہے چائے کے ساتھ ابلے ہوئے انڈے بھی مل جائیں۔۔لیکن تحقیق کے بعد چائے اور انڈوں کے حوالے سے ایک اور بات سامنے آئی ہے کہ چونکہ سردی کے موسم میں گیس بھی بہت کم آتی ہے،اس لئے جلدی جلدی چائے بنانے اور انڈے ابالنے کے لئے دوشیزائیں چائے میں ہی انڈے ابلنے رکھ دیتی ہیں۔جس سے وقت بھی بچتا ہے اور ایک تیر سے دو شکار بھی ہو جاتے ہیں اور دھونے والے برتن بھی کم ہوتے ہیں۔اس تحقیق کے بعد بہت سے مہمان صرف چائے وہ بھی بغیر الائچی والی کو ترجیح دینے لگے۔ابلے ہوئے انڈے اور الائچی کی قربانی دے کر اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ صرف چینی والی اچھی چائے پی لیں گے تو تحقیقات کے مطابق آپ کو آگاہ کرتا چلوں۔۔اکثر دوشیزائیں جب چائے بنا لیتی ہیں تو چینی چکھنے کے لیے ایک کپ میں تھوڑی سی چائے نکالتی ہیں تا کہ چائے میں موجود چینی کی کمی و بیشی کو چیک کر سکیں۔۔اور پھر وہ ایک چھوٹا سا گھونٹ لینے کے بعد کپ میں موجود چائے واپس کیتلی میں ڈال دیتی ہیں۔یعنی انڈوں اور الائچی کی قربانی دے کر بھی آپ بچ نہیں سکتے۔ایک اور تازہ تازہ تحقیق سے یہ انکشاف ہوا کہ۔۔آج کل لوگ موٹاپے کے ڈر سے چینی کی جگہ گُڑ کا استعمال کرتے ہیں۔۔اس لئے اب گُڑ والی چائے کا رواج عام ہو رہا ہے۔۔جب بھی کسی کے گھر جائیں تو گُڑ والی چائے پینے سے احتراز برتیں کیونکہ سگھڑ عورتیں اور دوشیزائیں چائے بناتے ہوئے جب گُڑ ڈالتی ہیں تو اپنے سفید موتی جیسے دانتوں سے گُڑ توڑ کر چائے میں ڈالتی ہیں۔۔ اس لیے جب بھی کسی کے گھر جائیں تو چائے پینے سے پہلے یہ تحقیقات ذہن میں رکھیں۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جو لڑکے تیز بائک چلاتے ہیں وہ بہت پیارے ہوتے ہیں۔۔ہمیں نہیں اللہ کو۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں