تحریر: نصرت جاوید۔۔
آندرے میرنام کا ایک محقق ہے۔چند برس قبل اس نے بہت لگن سے ایک کتاب لکھی تھی۔ ’’اخبار کی موت‘‘ اس کا عنوان تھا۔اس عنوان نے مجھے چونکا دیا کیونکہ 1975سے 2007تک میرے رزق کا کامل انحصار اخبارات کے لئے لکھنے پر رہا تھا۔ٹی وی صحافت کا رخ کرنے اور وہاں سے بہتر معاوضہ اور مراعات حاصل کرنے کے باوجود میں اس شعبے کی بابت کبھی مطمئن نہیں رہا۔ اس کی وجہ سے جو شہرت ملی اس پر نازاں محسوس کرنے کے بجائے رپورٹر کی اس گم نامی کو شدت سے یا د کرتا رہا جو لوگوں کے ہجوم میں عام انسانوں کی طرح گھل مل کر مجھے دلوں میں جمع ہوئے خیالات جاننے کی سہولت میسر کرتی تھی۔اکثر یہ خواہش بیدار ہوتی کہ سٹوڈیو کی چکا چوند اور شوبز کے سرخی پائوڈر سے نجات حاصل کرتے ہوئے پرنٹ صحافت کو لوٹ جایا جائے۔اپنے تئیں مگر فیصلہ نہ کرپایا۔بالآخر اگست 2018میں نمودار ہوئے حکومتی بندوبست نے ذلت آمیز انداز میں مجھے ٹی وی سکرین سے غائب کروادیا۔ ربّ کریم اسے مزید استحکام بخشے۔
آندرے میر کی کتاب نے لیکن مجھے مزید پریشان کردیا۔ ٹھوس اعدادوشمار کے ساتھ چونکہ اس نے اپنی کتاب میں اعلان کردیا تھا کہ اخبارات دورِ حاضر کے معاشی تقاضوں کی وجہ سے اپنا وجود ہی برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔2030کو بلکہ اس نے اخبار کے ذریعے ہوئی صحافت کا آخری سال بھی قرار دے رکھا تھا۔مذکورہ محقق کایہ دعویٰ تھا کہ ’’خبر‘‘ کے لئے قارئین کو اب صبح گھر پر آئے اخبار کے انتظار کی ضرورت نہیں رہی۔ انٹرنیٹ کی بدولت دنیا میں کسی بھی جگہ موجود شخص کو ’’اس کی ضرورت‘‘ والی ’’خبر‘‘ موبائل فونز کی بدولت 24/7میسر ہوتی رہتی ہے۔’’خبر‘‘ جان لینے کے بعد اسے پڑھنے والا محض اس کے بارے میں بنائی ’’رائے‘‘ کو جاننا چاہتا ہے۔یہ ’’رائے‘‘ بنیادی طورپر اس کے دل میں فطری طورپر کئی نسلوں سے موجود تعصبات پر مبنی ہوتی ہے۔ٹویٹر اور فیس بک جیسے پلیٹ فارم اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشروں میں طاقت ور ترین ذرائع ابلاغ بن چکے ہیں۔اس عالم میں تھوڑی سوچ بچار اور تحقیق کے بعد خبر فراہم کرنے اور اس پر ’’غیر جانب دارانہ‘‘ تبصرہ آرائی کی روایت نبھانے والے ’’اخبار‘‘ کی ’’طلب‘‘ ہی لوگوں میں باقی نہیں رہی۔معاشی حقیقت یہ بھی ہے کہ جس شے کی طلب معدوم ہوجائے اس کا وجود برقرار رہنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔
چند ہفتے قبل مگر کارل برنسٹین نامی ایک مشہور صحافی نے ایک اور کتاب بھی لکھی ہے۔اس صحافی نے اپنی جوانی میں باب ورڈز کے ساتھ مل کر واٹر گیٹ سکینڈل کو بریک کرنے کے بعد ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ جیسے طاقتور اخبار کے لئے اس کا تندہی سے پیچھا کیا۔امریکی تاریخ کا طاقت ور ترین صدر -نکسن- اس کی وجہ سے بالآخر استعفیٰ دینے کو مجبور ہوا۔ ’’تاریخ کا تعاقب‘‘۔۔(چیزنگ ہسٹری)مذکورہ صحافی کی تازہ ترین کتاب کا عنوان ہے۔یہ کتاب بنیادی طورپر اس کی آپ بیتی بھی ہے۔اپنے تجربے کی بنیاد پر برنسٹین کااصرار ہے کہ ’’اخبار کی موت‘‘ اس لئے یقینی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ’’اخبارات‘‘ اپنا معاشی وجود برقرار رکھنے کے لئے صحافت کی اس طرز کا پیچھا کرنا شروع ہوگئے جو درحقیقت ٹی وی یا انٹرنیٹ کے ذریعے ہوئی صحافت کے لئے مختص ہے۔
انگریزی کا ایک لفظ ہے کمیونٹی۔۔میں کئی دنوں سے اس کا اردو متبادل ڈھونڈ رہا ہوں۔معاشرہ یا برادری وہ تصور اجاگر نہیں کرتے جو کمیونٹی کا استعمال فوری طور پر آپ کے ذہن میں اجاگر کرتا ہے۔ہمارے ہاں ’’برادری‘‘ بلکہ جاٹ یا گوجر جیسی ذاتوں کا تصور ہی ذہن میں لاتی ہے۔علم لسانیات کی الجھنوں میں گرفتار ہونے کے بجائے برنسٹین کے اس بیان سے رجوع کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ سمجھانا چاہ رہا ہے کہ ’’اخبار‘‘ درحقیقت کسی شہر میں آباد’’کمیونٹی‘‘ کا ترجمان ہوتا ہے۔اسی باعث نیویارک ٹائمز یا واشنگٹن پوسٹ جیسے شہرئہ آفاق اخبارات خود کو اس شہر سے منسوب کرتے رہے جہاں سے وہ شائع ہوتے ہیں۔
وسیع تر قومی یا عالمی موضوعات پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے کسی شہر میں آباد ’’کمیونٹی‘‘ اخبارات سے یہ توقع رکھتی تھی کہ وہ ان کے ’’شہری‘‘ مسائل کو اجاگر کریں۔شہری مسائل کا ذکر چلا تو یاد آیا میری صحافت کا بہترین وقت وہ تھا جب بہت ہی معمولی تنخواہ پر میں اسلام آباد سے انگریزی میں شائع ہونے والے ’’دی مسلم‘‘ کے لئے جرائم کی خبریں دینے کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر ’’سٹی ڈائری‘‘ بھی لکھا کرتا تھا۔اس ڈائری میں روزمرہّ شہری مسائل کا ذکر ہوتا ۔اسلام آباد کے رہائشی علاقوں میں پانی کی فراہمی اور صفائی سے وابستہ سہولتوں کی عدم دستیابی ڈائری کے بنیادی موضوعات تھے۔اس کے علاوہ میں شہر میں ہوئی ادبی اور ثقافتی تقریبات کا ذکر بھی اسی ڈائری میں کرتا۔اس ڈائری کی وجہ سے اسلام آباد کے کئی مکین مجھ سے ازخود روابط استوار کرتے۔اپنے محلے کے مسائل پر توجہ دلاتے ۔کہیں کوئی جرم ہوجاتا تو اس علاقے کے مکین مجھے اس کے بارے میں فوراََ مطلع کرنے کی فکر میں مبتلا ہوجاتے۔اس ڈائری کی وجہ سے میں نے کئی برسوں تک نہایت اعتماد سے یہ محسوس کیا کہ میں اسلام آباد میں آباد کئی گھرانوں کے فرد کی حیثیت اختیار کرچکا ہوں۔’’اخبارکی موت‘‘ میری دانست میں اس وجہ سے یقینی ہورہی ہے کیونکہ ’’اخبار‘‘ نے اب مقامی شہری مسائل کی پرخلوص لگن کے ساتھ رپورٹنگ والا فریضہ بھلادیا ہے۔اس فریضے کی اہمیت مجھے مری میں سیزن کے عین مطابق ہوئی برفباری کے بعد رونما ہوئے المناک واقعات کی وجہ سے بہت شدت سے یاد آئی ہے۔میں اپنے گھر آئے اخبارات بہت غور سے پڑھتا ہوں۔ان تمام اخبارات کے ’’سٹی ایڈیشن‘‘ بھی ہوتے ہیں۔مری کو ہر اعتبار سے اسلام آباد شہر کا حصہ ہی تصور کیا جانا چاہیے۔ مجھے ایک صحافی ساتھی کا نام بھی لیکن یاد نہیں آرہا جو گزشتہ چند برسوں سے جذباتی لگن کے ساتھ مری میں ’’ترقی‘‘ کی وجہ سے ابھرتے شہری مسائل کا تسلسل سے ذکر کررہا ہے۔گزشتہ ہفتے کا آغاز ہوتے ہی مری میں برف باری کے لمبے ایام کا آغاز واضح انداز میں نظر آنا شروع ہوگیا تھا۔ میری دانست میں پیر یا منگل کے دن ہی سے وہا ں مقیم نامہ نگاروں سے تقاضہ شروع ہوجانا چاہیے تھا کہ وہ اپنے اخبارات کے لئے یہ معلومات جمع کریں کہ مقامی انتظامیہ نے سڑکوں کو برف سے صاف رکھ کر زندگی کو رواں کھنے والے ایس اوپیز کو بروئے کار لانے کے انتظامات کررکھے ہیں یا نہیں۔صحافتی تجسس اور لگن کے ساتھ یہ سوالات اٹھائے جاتے تو ہم کو علم ہوجاتا کہ اب کے برس وہاں سڑکوں کو برف سے صاف رکھنے کو مختص گاڑیاں مناسب تعداد میں ان مقامات کے قریب تعینات نہیں ہوئیں جہاں پر برف باری کے بعد مسافروں کے دھنس جانے کے واقعات ہوا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چند وڈیووائرل ہوئیں تو انتظامیہ کے علاوہ ہم صحافیوں کو بھی مری یادآگیا۔ جبکہ المناک واقعات کے امکانات اجاگر کرنے کے لئے ہم صحافیوں کو پیش قدمی لینا چاہیے تھی۔(بشکریہ نوائے وقت)۔۔