تحریر : عبدالصمد سدوزئی
نیوز چینلزکی پرخبریں پڑھنے والے نوجوان مرید عباس سے آج ملک کا ہر باخبر شہری واقف ہوچکا ہے ، اسے کیوں قتل کیا گیا؟ یہ تو ابلاغ کے تمام ہی ذرائع مختلف پہلوؤں سے کی جانیوالی تحقیقات کو سامنے لارہے ہیں، مگر مرید کی زندگی سے شاید چند قریبی ہی واقف ہیں ، اینکرنگ کے شعبے سے وابستہ مرید کوئی عام اینکر نہیں تھا بلکہ اگر اسے معاشرے کے لیے روشن مثال یا محنت و ہمت کی علامت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ، لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کرنیوالا نوجوان کسی جدی پشتی لینڈ لارڈ گھرانے کے بجائے ڈسٹرکٹ میانوالی کی تحصیل پپلاں سے کے ایک کم تعلیم یافتہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ، جس نے آٹھویں جماعت کا امتحان دیا تو والدین نے غریبی کے باعث آگے پڑھانے سے انکار کردیا، کچھ عرصے بعد کراچی سے اس کے ایک قریبی عزیزگاؤں آئے تومرید کے والدین نے ان سے درخواست کی کہ ہمارے بچے کو بھی اپنے ساتھ شہر لے جائیں اور اسے کہیں کام لگوادیں تاکہ یہ چار پیسے کما کر ہماری دال روٹی کا بھی بندوست کرے اورپھر یوں آٹھ جماعتیں پاس بچہ اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر تلاش معاش کی فکر لیے شہر آگیا۔
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں مرید کے انکل نے جہاں وہ خود نوکر تھے اسے بھی گھر کے کام کاج کی نوکری دلوادی ، مگر کم عمری میں اپنے والدین کو چھوڑ کرشہرآنیوالے بچے نے اپنے خوابوں کو ماند نہ پڑنے دیا ۔۔ اوراپنا کام انتہائی خلوص سے انجام دیتا رہا ، مرید عباس جس بنگلے میں نوکری کررہا تھا وہ کوئی عام گھرانہ نہیں بلکہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر جنہیں ممتاز قادری نے قتل کیا کے انتہائی قریبی عزیز کا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بنگلے کی مالکن جنہیں مرید (باجی) کہہ کر مخاطب کرتا ، اُس گھر کے تمام ہی فرد کم عمر بچے کی محنت ، لگن اورغیرمعمولی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوچکے تھے ، باجی نے مرید سے پوچھا کہ تم پڑھائی کیوں نہیں کرتے تو اس نے کہ جواب دیا کہ مجھے پڑھنے کا تو بہت شوق ہے لیکن میرے حالات مجھے اجازت نہیں دیتے ، یہ سننا تھا کہ باجی نے حقیقی بہن ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اسے نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات دلوائے ، مرید کی پڑھائی سے لگن نے باجی کو بہت متاثر کیا اور انھوں نے اسے تعلیم جاری رکھنے کا کہا ، اپنی غریبی کے باعث تعلیم جاری نہ رکھ سکنے والے بچے کی تو جیسے لاٹری ہی نکل آئی چنانچہ مرید نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا ، یوں اپنی باجی کی نیکی کی بدولت مرید نے زندگی میں آگے بڑھنا شروع کردیا تھا ، مرید کی باجی سلمان تاثیر کی قریبی عزیز تھیں اور سلمان تاثیر کا ان سے گھریلو تعلق ہونے کی وجہ سے باجی نے بات کرکے مرید کو تاثیر فیملی کے چینل بزنس پلس میں لگوادیا اوریوں مرید نے اپنی مالکن (باجی) ہی کی بدولت اس انڈسٹری میں قدم رکھا ، اور پھر دن رات کی محنت سے اپنی منزل کی جانب چلتا ہی چلا گیا۔
میانوالی سے گھروں میں کام کی غرض سے کراچی کرنے آنے والے کم عمر بچے نے زندگی کے کسی موڑ پر ہمت نہ ہاری اور ہر مشکل وقت کو پیچھے دھکیل کر کامیابی کی منازل طے کرنا شروع کیں ٓاور یوں بالآخر ملک کے ایک بڑے چینل سماء ٹی وی کی اسکرین پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا ، باجی کی شفقت ، تعلیم ، محنت ولگن کی بدولت مرید اپنی زندگی کے تمام تر پہلوؤں کو یکسر بدل کر اب ایک خودمختار زندگی گزارنے کے قابل ہوچکا تھا ،وہ ایک قابل اعتماد اور متاثر کن شخصیت کا مالک تھا ، اس نے ’’کوک‘‘ ، ’’اب تک‘‘ اور ’’بول‘‘ میں اینکرنگ کے فرائض انجام دیئے ، اور اپنی زندگی کو مزید بہتر سے بہتر بنانے کی لگن میں وہ ایک فراڈیئے کے ہتھے جالگا۔
اب اگر بات مرید عباس قتل کیس کی بات کرلی جائے تو میری معلومات کے مطابق اس میں سات افراد کا نام سر فہرست ہے، جو مرکزی ملزم عاطف زمان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطے میں تھے ، ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے رہے ، عاطف نے سب سے پہلے چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے دو بھائیوں یاسر اور ہمایوں کو اپنا گرویدا بنایا ، جنہوں نے پہلے پانچ لاکھ روپے انویسٹ کیے اورایک لاکھ روپے پر 25 ہزار روپے منافع وصول کیا ، عاطف انویسٹمنٹ کے دو ماہ ، کم و پیش 55 روز بعد منافع لوٹا تھا اور اس کی خاص بات یہ تھی جو سب کو اپنا پیسہ محفوظ ہونے کا اطمینان دلاتی وہ یہ تھی کہ آپ کی انویسٹمنٹ کی کل رقم کا چیک وہ آپ کو پہلے ہی پکڑا دیتا کہ جب چاہو اپنا پیسہ واپس لے سکتے ہو ، لاکھ روپے پر پچیس فیصد اضافہ ملنے پر دونوں بھائی بہت متاثر ہوئے اور انویسٹمنٹ بڑھانا شروع کردی ، ساتھ ہی اپنے قریبی دوست سماء ٹی وی کے اینکر فواد زیدی کو بھی مالیاتی اسکیم سے متعلق آگاہ کیا ، فواد بھی ٹائروں کے بزنس کو سمجھنے لگے کہ کیسے ملک بھر میں ٹائروں کی بڑی کھیپ اسمگلنگ کے ذریعے ہی آتی ہے اور اتنا بڑا منافع بینک تو کیا کوئی بڑا بزنس مین بھی نہیں دیتا ، لہذا دو بھائیوں کے علاوہ تیسرا اور میڈیا انڈسٹری کا پہلا شکار دانا چگنے کے لیے جال کے اندر آچکا تھا ، اس طرح فواد سے چوتھا مرید عباس ، پھر پانچوان جیو نیوز کے فنانس ڈیپارٹمنٹ کا سابقہ ملازم عمر ریحان ، چھٹا گڈز ٹرانپسورٹر خضر حیات اور ساتواں بول کا اینکر مدثر اقبال عاطف زمان سے رابطے میں آیا۔
وقت گزرتا رہا ہر دو ماہ بعد منافع ملتا رہا ، اور یوں ساتھ ایک کارواں بھی بنتا رہا ، ایک سے دو ، دو سے تین اور اسکیم تیزی سے مقبول ہوتی چلی گئی ، لوگ اپنی آمدن میں اضافے کی غرض سے اپنی جمع پونجی انویسٹ کرنے لگے اور یوں یہ نیٹورک ہزاروں لوگوں تک پھیل گیا ، عاطف زمان کا لائف اسٹائل دن بدن بدلتا چلا گیا ، 15 ہزار سے اپنی زندگی کی پہلی نوکری کی شروعات کرنے والا راتوں رات ارب پتی بن چکا تھا ، بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ بغیر کسی منظم سسٹم کے ہزاروں افراد پر مشتمل نیٹ ورک کو رواں دواں رکھا جاسکے ، لہذا عاطف نے فیصلہ کیا کہ انویسٹرز کے منافع کو کم کیا جائے تاکہ کام کا پھیلا پھولنا تھوڑا محدود ہوسکے ، یوں 2015 سے شروع ہونے والی اسکیم 2019 تک پہنچ گئی ، اور منافع پچیس فیصد سے گھٹ کر پندرہ فیصد کردیا گیا ، جوں جوں عاطف کے پاس پیسہ آرہا تھا وہ متکبر ہوتا جارہا تھا ، اس نے سیدھے منہ بات تک کرنا چھوڑ دی تھی ، اب چونکہ سب کے پیسے اس کے پاس تھے تو لہذا سب نے محتاط رویہ اپنا لیا اور سب عاطف بھائی کی شان میں گستاخی اور فضول مذاق سے بھی پرہیز کرنے لگے ، ایک دن عاطف زمان منظرسے غائب ہوگیا ، اس کے نمبر بند ہوگئے ، مرید نے اپنے تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے عاطف کی لوکیشن معلوم کی تو پتہ چلا کہ حب بلوچستان میں نمبر بند ہوا ساتھ ہی نادرا نے بھی کچھ اہم راز مرید عباس پر طشت ازبام کردیئے ، اب مرید کے سامنے عاطف کی فیملی کی تفصیل آچکی تھی ،تفتیشی حکام کہتے ہیں کہ عاطف کا باپ کراچی میں نہیں اور اس کا اس گیم سے بھی کوئی تعلق نہیں ملا جبکہ ہمارے ذرائع بتاتے ہیں کہ عاطف اکیلا نہیں بلکہ اس کے بھائی اور باپ بھی اس گیم سے باخبر تھے اور عاطف نے جس شخص کو بلڈر ظاہر کیا وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کا باپ علی زمان تھا ، یہ بات مرید جان چکا تھا کہ عاطف نے ہم سے جھوٹ بولا، عاطف کچھ عرصے بعد واپس آگیا اور اپنے اغوا ہونے کا ڈرامہ رچایا اور بتایا کہ مجھ سے بھاری رقم چھین لی گئی ہے ، مرید چونکہ اب عاطف پر شک کرنا شروع ہوگیا تھا تو اس نے اپنے پیسے واپس مانگنا شروع کردیئے ،جس پر عاطف نے ناراضی کا اظہار کیا ، اور منافع دینا بھی بند کردیا ، آہستہ آہستہ مرید عاطف زمان کے گیم کو سمجھنے لگا اور اس پر پریشر بڑھانا شروع کردیا اور دیگر ساتھیوں سے بھی کہا کہ اپنے پیسے واپس لو!
یہی وجہ تھی کہ عاطف کو خطرہ ہوگیا تھا کہ اب میرے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے اور اس نے پانچ بندوں کو مارنے کا منصوبہ بنایا ، عاطف نے مرید پر کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ اس کی جان بھی لے سکتا ہے ،حتیٰ کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ قتل کی واردات سے ایک روز قبل عاطف نے اعتماد بحال رکھنے کےلیے مرید کے گھر ایک آم کی پیٹی بھی بھجوائی اور اگلے ہی روز اسے پیسے لینے کے لیے فون کرکے بلوا کر قتل کردیا۔
آخر میں میڈیا سے منسلک افراد کی انویسٹمنٹ کی بات کروں کہ کتنے افراد نے پیسے لگائے ہیں تو ہمارے ایک نہایت محترم ساتھی کرائم رپورٹر نے بتایا ہے کہ ایک اعلیٰ تفتیشی افسر کے مطابق ’’میڈیا کے اتنے افراد نے انویسٹمنٹ کررکھی ہے کہ اگر سب کو پوچھ گچھ کے لئے بلوالوں تو شاید کئی چینلز پر ایک وقت کا نیوز بلیٹن نہ ہوسکے۔۔‘‘
نوٹ: مرید عباس کی زندگی کی روداد ان کے ایک انتہائی قریبی دوست سے معلوم ہوئی ۔(عبدالصمد سدوزئی)۔۔
(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)