تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، کالم کے عنوان سے آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ ہم بھی روایتی کالم نگاروں کی طرح سانحہ مری سے متعلق انسانیت سوز واقعات لکھ کر آپ کو مغموم کردیں گے۔۔ اتوار کے روز سے نیشنل میڈیا ہو یا ورقی و برقی میڈیا، یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر مسلسل مری کے حوالے سے نت نئی خبریں اور ٹینشن والی چیزیں سامنے آرہی ہیں۔۔ مری واقعہ کے بعد ہمارے باباجی نے بالکل سوفیصد درست کہا کہ۔۔ ہم بے حس قوم ہمیشہ کسی سانحہ کے بعد ہی جاگتے ہیں۔۔ ملک کے بڑے کالم نگارہوں یا بڑے بڑے اینکرز سب ہی اپنی اپنی جگہ مری کا رونا رو رہے ہیں۔۔اور حکمران طبقہ ’’مری بیوریجز‘‘ کے مشروب کا استعمال کرتے ہوئے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے۔۔ انہیں یہ خوشی تو ہے کہ ایک لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوگئیں لیکن مری بیوریجز کے مشروبات کے زیراثر انہیں اس بات کا اندازہ نہ ہوسکا کہ یہ ایک لاکھ گاڑیاں پارک کہاں ہوں گی؟ اس میں سوار لوگ کہاں شب بسری کریں گے؟
مری کا نام سنتے ہی ہمیں اپنا بچپن یاد آجاتاہے،ہماری ٹیچر کہا کرتی تھیں کہ کبھی بھی برے الفاظ منہ سے نہ نکالا کرو، فرشتے آمین کہتے ہیں۔۔ ہم نے گھر آکر اپنی ماں سے ٹیچر کے کہے کی تصدیق چاہی تو امی حضور نے بھی اس پر اپنی مہر ثبت کردی،جس کے بعد ہمارے ذہن میں بیٹھ گیاکہ برے الفاظ منہ سے نہ نکالو۔۔ اگلے دن سکو ل کی بریک میں ہمارے ایک کلاس فیلو نے پوچھا، تمہیں کس علاقے کی سیر کا دل چاہتا ہے، سب نے اپنے اپنے فرمائشی پروگرام سے آگاہ کیا، ہماری باری آئی تو ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔ اللہ کرے میں مری جاؤں۔۔۔بس پھر کیا تھا،ہمارے تمام کلاس فیلوز نے بریک ختم ہونے کے فوری بعد کلاس ٹیچر کو ہماری شکایت لگادی۔ٹیچر نے ہمیں کلاس میں کھڑا کردیا اور پوچھا کہ واقعی ایسا کہا تھا۔۔ ہم نے اثبات میں گردن ہلادی اور کہا، یس ٹیچر، یہی کہا تھا۔۔ٹیچر کا پارہ اچانک ہائی ہوگیا،غصے میں بولیں۔ کل میں نے کیا سمجھایا تھا،کبھی برے الفاظ منہ سے نہ نکالاکرو، فرشتے آمین کہتے ہیں۔۔ ہم نے کہا، یس ٹیچر،بالکل یہی کہا تھا ، لیکن ہم نے کوئی برے الفاظ منہ سے نہیں نکالے، ہم نے تو پنجاب کے شہر ’’مری‘‘ جانے کی خواہش کا اظہارکیاتھا۔۔ جب ٹیچر کو ہمارے جملے کی سمجھ آئی تو وہ بھی بے ساختہ ہنس پڑیں۔۔ اور ہمیں بٹھادیا۔۔
کسی نے ایک حسین دوشیزہ سے سوال کیا، شادی کے بعد تم کیسی ساس چاہتی ہو؟ وہ بولی۔۔ ساس چنگی ہووے یا اودی فوٹو دیوار تے ٹنگی ہووے۔۔کہتے ہیں کہ عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے۔۔آپ اپنے اطراف کا جائزہ لے لیں، یہ شوہر کی خفیہ گرل فرینڈ تو برداشت کرلیتی ہیں لیکن سوکن کبھی برداشت نہیں کر سکتیں۔۔باباجی فرماتے ہیں، زمانہ قبل از مسیح سے لے کر آج تک عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ ساس،بہو کا تو چھتیس کا آکڑا ہے، ان کی کبھی نہیں بنتی،پہلے ساس بہو پر حاوی ہوتی تھیں اور آج بہوئیں ساس پر حاوی ہوتی ہیں، بات دراصل یہ ہے کہ عورت خواہ وہ ماں اور بہن کی شکل میں ہو یا پھر ساس اور بہو کی روپ میں وہ ہر صورت میں انتہائی تنگ نظر واقع ہوئی ہیں،دوسروں کے حقوق تو انہیں بالکل یاد نہیں رہتے لیکن جب کوئی دوسرا ان کے حقوق کی ادائیگی میں کچھ کمی بیشی کردے، تو یہ آسمان سر پر اٹھالیتی ہیں، ان کی زبانوں پر شکایتوں کے انبار لگ جاتے ہیں، ناشکری کی انتہا ہو جاتی ہے، ہمیشہ اپنی بیوی کے نان و نفقہ کا خیال رکھنے والا شوہر اگر ایک دفعہ بھی کسی مجبوری کی بناپر اہلیہ کی مانگ پوری نہیں کرپایا،تو بیوی کی زبان قینچی کی طرح چلنے لگتی ہے کہ آپ نے میری لیے پوری زندگی کیا کیا ہے، زندگی بھر تو آپ سے دکھ اور تکلیف ہی ملی ہے، کبھی آپ کے ساتھ چین کی زندگی نصیب نہیں ہوئی وغیرہ وغیرہ۔۔اسی طرح اپنی ماں کا ایک فرمانبردار اور اطاعت گذاربیٹا اگر شادی کے بعد بیوی کو تھوڑی زیادہ توجہ دے دے، تو ماں طعنے دینا شروع کردیتی ہیں کہ ہاں ہاں اب تو تیری شادی ہوگئی نا!اب تو مجھے وقت کیوں دیگا؟، اب تو تمہارے لیے جو کچھ ہے،وہ تمہاری بیوی ہے۔۔
ساس ہو یا بہو، فی زمانہ ہمارے خیال میں دونوں ہی دل ہی دل میں ایک دوسرے کو مخاطب کر کے کہتی ہوں گی۔۔ مر۔ری۔۔۔ ان دونوں فریقوں کے درمیان شوہر بے چارہ سینڈوچ بن کر رہ جاتا ہے۔ زیادہ تر گھرانوں میں ساس نامی شخصیت،نئی نویلی دلہن کو اسی قسم کے لفظی نشتر چبھوکر اپنی ’’زنانہ بھڑاس‘‘ نکالتی ہے۔ساس کے قلب و ذہن میں اپنی ہم صنف کی دشمنی اس کی کم عمری کے باعث پلتی ہے یا اس کے حُسن وجمال سے حسد کی وجہ سے پروان چڑھتی ہے، اس ضمن میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ساس، بہو کے لئے ایک بھیانک وجود ثابت ہوتی ہے جو بہو کی دشمنی میں اتنی آگے نکل جاتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا گھر برباد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ ایسے میں ہر ذی شعور دلہن ساس کے زہریلے جملے ہنس کر برداشت کرتی ہے اور اسی تحمل کے باعث وہ اپنا گھر ٹوٹنے سے بچا پاتی ہے۔ اصولی طور پر اگر دیکھا جائے تو لڑکے کے گھر والوں اور رشتہ داروں کو اس طرح کے جملے شادی کے بعد نہیں کہنے چاہئیں کیونکہ اس لڑکی کو وہی گھر والے اپنے بیٹے کیلئے پسند کر کے لاتے ہیں۔۔ہمارے ایک دوست بتارہے تھے کہ ۔آج بیگم اور ماں کے بیج زبردست جھگڑا ہوگیا اور ہم بیچ میں پھنس گئے ماں کی سائیڈ لو تو بیگم ناراض۔۔ اور بیگم کی لو تو ماں ناراض ۔۔پھر اچانک ماں نے ایک ایسا جملہ کہہ دیا جس سے ایک دم خاموشی چھا گئی اور میری ساری ہمدردیاں ماں کی طرف ہوگئیں آپ بھی سن لیں وہ جملہ۔۔پتر تو دفعہ کر اس چڑیل نوں میں تیرا دوسرا ویاہ کرانی آں۔۔ ایک دوست نے سٹیٹس اپڈیٹ کیا۔۔ زوجہ کی طبیعت خراب ہے، دعاؤں کی درخواست ہے۔۔ ہم نے کمنٹس میں جاکردعا دے دی۔۔اللہ کریم شفاکاملہ عاجلہ عطافرمائے۔۔ دوست نے جواب دیا۔۔ دعاؤں کی گزارش کی تھی۔۔ہم چونکہ پٹھان ہیں اس لئے اپنے دوست کا جملہ اگلے روز جاکر سمجھ آیا،اور ہم اس باریک جملے کا کافی دیر تک لطف اٹھاتے رہے۔۔ باباجی سے کسی نے پوچھا۔۔ گھڑی اور بیوی میں کیا قدر مشترک ہے؟ بابا جی مسکراکرکہنے لگے۔۔گھڑی بگڑ جائے تو رک جاتی ہے۔بیوی بگڑ جائے تو شروع ہو جاتی ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔باباجی کہتے ہیں، ہم بحیثیت قوم ’’مری‘‘ والے ہی ہیں بس برف باری ہونے کی دیر ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔