تحریر: خرم علی عمران۔۔
آدم جی اانعام یافتہ ناول اداس نسلیں جو کہ بلا شبہ اردو زبان کے بڑے ناولوں میں شمار ہوتا ہے اوراداس نسلیں کا موضوع وہ زمانہ ہے جب ہندوستان پر برطانیہ کا راج تھا ہے۔ یہ ناول اپنے اندر ایک عہد کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ ناول کے واقعات کی ابتدا 1857 کی جنگ آزادی سے ہوتی ہے اور اختتام بٹوارے کے بعد پاکستان کے قیام پر ہوتا ہے۔ ناول میں 1857 کی جنگ آزادی ، جاگیردارانہ ذہنیت کا پھیلاؤ، کانگریسی سیاست، مسلم لیگی جد و جہد کا بیان، جلیانوالہ باغ کا واقعہ اور ہونے والاقتل عام ،مسلم تشخص کا احساس، دوسری عالمی جنگ یا جنگ عظیم دوئم اور اس کے ہندوستان پر اثرات، ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد،تقسیم ہند کے دوران ہونے والے دردناک کے فسادات اورپاکستان کے قیام سے متعلقہ واقعات کو خاص کر اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی ناول تھا جس میں تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ ایک نواب کی بیٹی اور کسان کے بیٹے کی محبت کی کہانی بھی چلتی ہے ایک ایسا ناول جو آج بھی زندہ ہے اور کتنی ہی نسلیں اس کو پڑھ چکی ہیں۔ بقول عبداللہ حسین کے کہ جب سے ’اداس نسلیں‘ لکھی گئی اس وقت سے اس کتاب کی خوش قسمتی اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر نسل اداس سے اداس تر ہوتی جا رہی ہے، اسی بات کو بڑھاتے ہوئے مجھے یہ کہنے کی جسارت کرنے دیجیئے کہ، اگر اس عظیم اردو ناول کے مصنف جناب عبداللہ حسین کو بیسویں صدی کے اختتام پر شروع ہونے والی اکیسویں صدی کی ابتدا سے تاحال کے درمیانی زمانے کو بیان کرنے کے لئے اپنی دلپذیر تحریر میں نئی دنیا اور نئے حالات کے تناظر میں کوئی ناول لکھنا پڑتا تو وہ اس کا اپنے پچھلے شاہکار ناول کے لحاظ سے اس کا کیا نام رکھنا پسند کرتے میرا طالبعلمانہ خیال اس مفروضے کے حوالے سے یہ ہے کہ اس مفروضہ ناول کا نام خوفزدہ نسلیں ،مایوس نسلیں یا منتشر نسلیں رکھا جاتا ۔
یہ کوئی بلیغ طنز نہیں بلکہ احوال واقعی ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو کہ سراسر انتشار کا دور ہے اور نہ صرف ہمارا ملک بلکہ یہ برصغیر، اور بر اعظم ایشیا ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ پہلی دنیا کے ممالک اور اقوام بھی طرح طرح کے ذہنی،جسمانی، روحانی،نفسیاتی، معاشرتی اور سیاسی و معاشی انتشارات کا شکار نظر آتی ہیں اور قبل از کورونا کی دنیا میں بھی ساری دنیا میں پیش آنے والے نوع بہ نوع منفی واقعات اس بات کے اور اس ہمہ اقسام کےعالمگیر انتشار کے شاہد ہیں لیکن کرونا نے تو گویا قیامت ہی ڈھا دی۔ کورونا کی وبا نے گویا ساری دنیا اس موجود ہمہ گیر انتشار اور بھی مہمیز کردیا اور انتشار کے ساتھ ساتھ اب دنیا میں ڈر خوف اور وحشت نے بھی عالمگیر طور پر اپنی جگہ بنا لی ہے۔
اب آپ ذرا وطن عزیز پر غور تو کریں مجھ سمیت کیا ہر ایک فرد سوائے کروڑوں میں معدودے چند کے سوا ،لمحہ ء موجود میں طرح طرح کے نئے ڈراووں،انتشار اور تفکرات کا شکار نہیں ہے؟ کل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں دو تعلیم یافتہ افراد کے درمیان بات کچھ یوں ہورہی تھی کہ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ بچوں کا تعلیمی سال اس موجودہ کووڈ19 سے پیش آمدہ صورتحال ضائع ہوجائے گا اور بڑا نقصان ہوجائے گا تو دوسرے صاحب فرمانے لگے کہ اگر زندہ رہے تو نقصان ہوگا نا! یہ جوابی فقرہ ہماری پوری اجتماعی موجودہ نفسیات کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے۔ لوگ اب اپنا ارتکاز کھوتے جارہے ہیں اور سچی بات ہے کہ بڑے بڑے عالی دماغ بھی اس آفت اور اس سے پیدا ہونے والے تباہ کن اثرات کا تصور کرکے لرز رہے ہیں کہ اگر کسی طرح چند مہینوں میں یہ عالمگیر آفت پوری طرح قابو بھی آگئی تو ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کو اس کے بدترین اثرات سے نکلتے نکلتے نہ جانے کتنا وقت لگ جائے گا اور کتنا نقصان ہوجائے گا۔ ہرذہنی اور فکری انتشار ایک خاص سطح سے گزرنے کے بعد مایوسی کو جنم دیتا ہے اور مایوسی کالازمی نتیجہ کوئی نہ کوئی منفی قدم اٹھاناہوتا ہے جس سے کوئی فائدہ تو ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن پیش آمدہ فرضی یا حقیقی نقصان میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ تو یہ طرح طرح کے ڈراوے،تفکرات اور انتشار ہمیں یا تو مایوسی کی جانب لے جارہے ہیں یا خود غرضی اور بے حسی کی جانب اور حالات بد سے بد تر کی جانب ہی جاتے نظر آرہے ہیں۔
یہاں تک تو بات جو تھی وہ مایوسی ہی پھیلا رہی تھی لیکن اب بات اگر اس سارے انتشار اور ڈر سے نکلنے کی کری جائے تو ہمارے پاس اس کے لئے کیا کیا ذرائع، وسائل اقدام اور اسباب موجودہیں۔ سرکاری اور حکومتی کوششیں اپنی جگہ، سماجی اور فلاحی اداروں کی کاوشیں بھی سر آنکھوں پر، مختلف بین الاقوامی اداروں اور ممالک کی امداد بھی بہت لائق تحسین، طبی اور جنیاتی تحقیق کاروں کو بھی سلام لیکن اب سب عوامل کے ساتھ ساتھ میری ناقص رائے میں جو چیز ہمیں سب سے زیادہ ڈھارس دے سکتی ہے وہ ہے عقیدہ،دین یا مذہب، کہا جاتا ہے کہ مذہب کی سب سے بڑی خوبی اسکےدیگر لاتعداد فوائد کے ساتھ ساتھ یہ ہے کہ وہ انسان میں بدترین حالات میں بھی امید جگا دیتا ہے۔ اس کو دعا کا زبردست ہتھیار مل جاتا ہے اور دعا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تقدیر مبرم یعنی نہ ٹلنے والی تقدیر کو بھی تبدیل کردینے کی طاقت رکھتی ہے۔ تو آپ جس بھی عقیدے ،مذہب اور مسلک کے ماننے والے ہوں اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اس لازوال اور سارے اختیارات اور قدرتوں کی حامل اس عظیم و عالیشان ذاتِ واحد کو پکاریں جسے کوئی خدا،کوئی گاڈ، کوئی ایشور اور کوئی اللہ کہتا ہے اور اس سے تعلق کو مظبوط بنائیں تو بدترین صورتحال میں بھی آپ انتشار اور مایوسی کے اندھیروں سے سے ضرور بالضرور بچے رہیں گے اور امید کی روشنی آپ کے اردگرد جھلملاتی رہے گی ہاں ملحدین اور خدا کو نہ ماننے والے اور اس مختلف مکتبہء فکر، جس نے خدا کو منفی کردیا ہے، کے عاملین کو اس ساری صورتحال میں کیا مشورہ دیا جائے یہ ذرا دقت طلب سی بات ہے لیکن کیونکہ وہ بھی تو انسان تو ہیں نا اس لئے اپنی دعاؤں میں بلا تخصیص رنگ و نسل ، قوم و مذہب اور مقام ساری ہی انسانیت کو یاد رکھنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس طرح سے انسان ہونے کا ہم بھی کچھ نہ کچھ تو حق ادا کر ہی پائیں گے۔(خرم علی عمران)