تحریر: عادل پرویز۔۔
کچھ عرصہ قبل اپنی رہائش گاہ سے چند قدم کے فاصلہ پر کچھ ضروری ادویات کی خریداری کے لئے میڈیکل سٹور جانا ہوا۔ میڈیکل سٹور کے مالک سے سلام دعا تھی۔ جب میڈیسن کے پیسے دینے لگا تو سٹور مالک نے کہا کہ ایک تم کرائم رپورٹر ہو جو پیسے دے کر میڈیسن خرید رہے اور ایک اخباری کرائم رپورٹر میرے سٹور کی ساتھ رہتا تھا جس کے گھر کا راشن بھی پولیس وین میں آتاتھا۔ تمہیں بھی اسی کے راستے چل کرآگے بڑھنا چاہیے۔ تمہیں بھی پولیس سے اچھےتعلقات بناکر رکھنے چاہیے۔ لوکل اخبار کے کرائمز رپورٹر کی طرح پیسے بھی کمانے چاہیے۔ سٹور مالک باتیں کرتا رہا میں سنتارہا۔ پھر آخر میں اس نے کہا کہ لیکن اس صحافی کی آخری عمراچھی نہ گزری۔ بیمار بھی رہا اور کچھ پاس بھی نہ تھا۔۔ ادویات کا لفافہ پکڑتے ہوئے میں نے بس اتنا کہاکہ تم نے اس صحافی کی آخرت کا ذکر کرکے میرا جواب بھی خود ہی دےدیا۔۔
میرے والد صاحب بھی کچھ عرصہ فوٹو جرنلسٹ رہے۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ “صحافت میں یاتو نام پیدا ہوتا ہے یا پھر پیسہ “۔۔۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ نام چاہیے یا پیسہ۔۔کرائمز بیٹ میں دس سال تک کام کیا۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران و اہلکاروں سے اچھی سلام دعا رہی۔ لیکن دوستی کسی سے نہ کرسکا۔ عزت بہت ملی لیکن پیسہ نہ کماسکا۔ میرے ساتھ میرے دو اوردوست بھی تھے۔ جن میں سے ایک آج بھی کرائم بیٹ کررہاہے۔ لیکن ہمارے ٹرائی اینگل نے ذاتی مفاد کے لئے پولیس کو کم ہی استعمال کیا۔ ہاں بغیر نمبرپلیٹ موٹرسائیکل یا آوارہ گردی کیس میں چند قریبی جان پہچان والوں کو ضرور چھڑوایا۔ ہم تینوں کے نام بھی “اے” سے شروع ہوتے ہیں۔ یعنی عادل، عدنان اور عامر ۔ اسلئے زیادہ عام ہوئے۔ ہمارے سامنے کرائمز رپورٹر پیدل سے گاڑیوں کے مالک بن گئے۔ لیکن ہم موٹرسائیکل سے آگے نہ بڑھ سکے۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگزاور دیگر کرائمز کی کوریج اور فالواپ میں دن رات گنوادیئے ۔ بال سفید اور پیٹ باہر نکل آیا۔ لیکن صلہ کیا ملا کچھ بھی نہیں۔۔
دفتر میں بڑے سے لے کر چھوٹے تک اپنے کام تو کروالیتے لیکن بعد میں شوڑا مار اور پولیس کرپشن کا ساتھی قراردیتے۔ لیکن کبھی پرواہ نہیں کی کیونکہ میراماننا ہے کہ جب آپ کا دل اور ضمیر صاف ہو تو کسی کی باتوں کودل سے نہیں لگانا چاہیے۔ عزت و ذلت دینے والی اللہ کی ذات ہے۔ اپنے زمانے کے مشہور اور طاقتور ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز ہماری مثال دے کر کہتے تھے کہ یہ لوگ صرف کام کے لئے آتے ہیں ، ذاتی مفاد کے لیے نہیں۔ آج جب سوچتا ہوں تو اپنا ماضی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے۔ آجکل کی وٹس ایپ گروپس صحافت دیکھ کر افسوس تو ہوتا ہے،، لیکن رشک بھی آتا ہے کہ جتنا عرصہ بھی صحافت کی،، عزت سے کی۔ محنت سے کی۔ خبر ملی بھی لیکن نکالی ذیادہ۔۔ بہت سے صحافی ہر بیٹ میں پیسااور ذاتی مفاد کماتے ہیں ، بڑے بڑے اینکرز جائیدادوں کے مالک بن گئے۔ لیکن مُنی سے ذیادہ بدنام کرائمزرپورٹرز ہی ہیں ۔(عادل پرویز)۔
۔