تحریر: نصرت امین۔۔
سچ یہ ہے کہ میں نے عمر شریف کو سب سے پہلے ٹیلیویژن پر مہتاب چنا کے اسٹیج پروگرام “فروزاں” میں دیکھا تھا۔اس سے قبل اگر وہ کبھی ٹی وی اسکرین پر جلوہ گر ہوئے ہوں، تو مجھے یاد نہیں۔ اتنا یاد ہے کہ جب وہ مہتاب کے پروگرام میں آئے تھے، مجھے ان کا نام نہیں معلوم تھا۔ وہ کم عمر تھے، ذہانت اور برجستگی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔
مہتاب چنا اُس وقت اپنی خوبصورتی اور ا انتہائی articulate ہونے کے سبب ٹی وی دیکھنے والوں میں بہت مقبول تھیں۔ تعلیم اور آگہی نے ان کے حسن کو گویا چار چاند لگا دئیے تھے۔ بہت سے مرد ناظرین تو پروگرام سے زیادہ مہتاب چنا کو دیکھا کرتے تھے۔ نوجوان خواتین یقیناً ان کا انداز اپنانے کی کوشش کرتی ہوں گی۔ مہتاب ملک بھر سے ٹیلنٹ ڈھونڈ کر اپنے اس پروگرام میں لایا کرتی تھیں۔
مہتاب نے عمر شریف کو اسٹیج پر بلاتے ہی پوچھا کہ وہ اتنے بہت سے کام ایک ساتھ کیسے کرلیتے ہیں؟ مہتاب کے اس سوال کا آخری جملہ تھا، “عمر، یہ بتائیے کہ آخر آپ چیز کیا ہیں؟” اس پر عمر نے شرماتے ہوئے جواب دیا،”اجی ہم تو ناچیز ہیں، چیز تو ۔۔۔۔” عمر جملے کے آخری دو الفاظ یعنی “آپ ہیں” ادا کرنے کے بجائے، مہتاب کے چہرے کی طرف دیکھنے لگے۔اس پر پورا ہال قہقہوں کے گونج اُٹھا۔ لیکن سب سے زیادہ ہنسی خود مہتاب کو آرہی تھی۔ اُن کا بہ یک وقت شرماتے اور خوش ہوتے ہوئے، عمر شریف کو یوں ہنس کر داد دینا ناقابل فراموش منظر تھا۔
اسی پروگرام میں انجم نام کا ایک اور نوجوان سوٹ اور ٹائے پہن کر بیٹھا ہوا تھا، اس نے غلطی سے عمر شریف کے لباس پر طنز کردیا۔ اس پر مہتاب کے تاثرات بگڑنے لگے، لیکن عمر نے پلٹ کر جواب دیا،”آپ کیسے کسی دوسرے کے لباس پر تبصرہ کرسکتے ہیں؟ میں نے تو آپ سے نہیں پوچھا کہ آپ اتنی سخت گرمی میں سوٹ کیوں پہن کر کیوں آگئے۔” اس پر مہتاب کے ہنستے ہوئے چہرے پر صاف لکھا تھا، “شاباش عمر!۔” وہ بلا جھجک اور بے خوفی سے، کھلم کھلا عمر شریف کا ساتھ دے رہی تھیں۔
مہتاب چنا اب مہتاب اکبر راشدی کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ ایک بار حیدرآباد کے ایک سیمینار کے دوران اپنی باری پر بولتے ہوئے میں نے ان کی موجودگی میں ان کو مہتاب راشدی کے بجائے مہتاب چنا کہہ دیا، اس پر چند دوستوں نے بعد میں کہا کہ میں نے ان کا غلط نام لیا ہے۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مہتاب راشدی صاحبہ سے چند روز قبل ملاقات ہوئی تو انہیں عمر شریف والا پروگرام لفظ بہ لفظ یاد تھا۔
عمر شریف ایک ڈانگری نما لباس پہن کر اُس پروگرام میں آئے تھے، اس لباس کو میں نے ہندوستانی فلموں میں سنجے دت اور گووندا کو پہنے دیکھا تھا۔
مجھے عمر شریف کے مزاح میں ہمیشہ منور ظریف کی جھلک نظر آئی۔عمر کے مداح شاید متفق نہ ہوں، لیکن ان کی ادائیگی، ٹائمنگ اور ان کے کئی کردار، منور ظریف کی یاد دلاتے تھے۔ آخر ایک دن میں نے ایک ویڈیو میں عمر شریف کو یہ کہتے سن ہی لیا، “ہر شخص موت کے نام سے خوف زدہ ہوجاتا ہے یا افسردہ، مجھ پر بھی یہ کیفیت تھوڑی دیر کے لئے طاری تو ہوتی ہے، لیکن یہ سوچ کر خوش بھی ہوتا ہوں کہ استاد منور ظریف سے ملاقات ہوگی۔“ اس کے بعد بھی انہوں نے منور ظریف کے لئے چند جملے کہے جو مجھے اب یاد نہیں رہے۔ البتہ ایک بار جیو ٹی وی کے اسٹوڈیو میں ایک پروگرام سے قبل مختصر سی گفتگو میں، میرے پوچھنے پر انہوں نے منور ظریف سے اپنی عقیدت کا کھل کر اظہار کیا۔
عمر شریف ٹیلیویژن کی مدد کے بغیر اپنے آڈیو کیسیٹس کے ذریعے پورے ملک اور ہندوستان میں مشہور ہوچکے تھے۔ ظرافت سے بھرپور ان کے بہت سے جملے سمجھنے کے لئے کرکٹ، فلم انڈسٹری اور کراچی کے گلی کوچوں کی ثقافت و روایات سے واقف ہونا بہت ضروری ہوا کرتا تھا، لیکن دوسری طرف ان کا زیادہ تر مزاح عام فہم تھا۔ شاید اسی لئے دنیا بھر میں اردو ہندی بولنے اور سمجھنے والی کروڑوں کی آبادی ان کی دیوانی تھی۔ سال دوہزار تیرہ میں ہندوستان گیا تو وہاں لوگ عمران خان اور عمر شریف سے متعلق سب سے زیادہ سوال کیا کرتے تھے۔
عمر شریف کے دنیا سے جانے پر مجھے خیال آیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں، پاکستان کی اداس قوم کو جو کچھ دیا وہ اس ملک کے کسی بھی حکمران، سیاست دان، جرنیل، دانشور، صحافی، ڈاکٹر، سائنس دان یا فنکار کی انجام دی ہوئی خدمات سے کہیں زیادہ ہے۔ تاریخ نویس اس معاملے میں عبدالستار ایدھی کے ساتھ اگر کسی کا نام لکھ سکتے ہیں، تو وہ صرف عمر شریف ہے۔(نصرت امین)
(مذکورہ تحریر نصرت امین صاحب کے سوشل ویب سائیٹ اکاؤنٹ سے لی گئی ہے، جو شکریہ کے ساتھ شائع کی جارہی ہے، علی عمران جونیئر)۔۔