سینئر صحافی، اینکرپرسن اور کالم نویس رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ ۔۔پھر وہی الیکشن اور وہی پرانے کھلاڑی اور پرانا ماحول۔ مزے کی بات ہے کہ اعتراضات بھی وہی پرانے ہیں جنہیں سُن اور پڑھ کر پہلے ہنسی اور پھر رونا آتا ہے۔ہر پانچ سال بعد اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ الیکشن کون کرائے گا۔ فوج‘ عدلیہ یا ڈپٹی کمشنر۔جو بھی الیکشن کرائے سیاستدانوں نے اعتراض ہی کرنا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔۔دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ہم عجیب منحوس سائیکل میں پھنس گئے ہیں۔ نواز شریف‘ عمران خان اور بلاول کے نزدیک کوئی ادارہ قابل بھروسا نہیں رہا جو الیکشن کرا سکے۔ ان تینوں کے نزدیک الیکشن اس وقت ہی شفاف ہوسکتے ہیں جب صرف وہ وزیراعظم بنیں۔ اگر کوئی اور وزیراعظم بنا تو پھر اداروں نے دھاندلی کی ہے۔دھاندلی کے الزامات سے اسی طرح چھٹکارا مل سکتا ہے کہ نواز شریف‘ عمران خان اور بلاول تینوں کو اکٹھے وزیراعظم بنا دیں۔ یہ تینوں روز وزیراعظم ہاؤس الگ الگ دفاتر میں بیٹھا کریں‘ محفلیں سجائیں‘ دنیا بھر سے خوشامدی اکٹھے کریں‘ اپنے اپنے شاہی درباروں کو رونق بخشیں‘ اپنے اپنے درباریوں سمیت اور مزے کریں‘ پھر ہی ملک کو سکون مل سکتا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ کیا حماقت ہے۔ حماقت سمجھیں یا بونگی لیکن اس کا یہی حل ہے ورنہ اقتدار کے بھوکے سیاستدان فروری کے بعد نیا طوفان اٹھائیں گے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔