ملک کا چوتھا ستون اور عروج و زوال

تحریر: ڈاکٹر شیخ سمیر سمی

ملک کا چوتھا ستون اب مختلف حصوں میں تقسیم ہو کر عجیب و غریب خدو خال کی بدولت ایک نیا روپ اختیار کرتا جارہا ہے ۔اور صحافت جس کے حقیقی معنی معاشرتی نظام میں ہونے والی برائیاں،نا انصافیاں،ظلم و ستم،لوٹ کھسوٹ،پسے ہوئے طبقے کے حقوق اور مسائل کو اجاگر کرنا تھا اب وہی صحافت کاروباری رنگ و روپ میں تبدیل ہو کر ایسے افراد کو اس شعبہ کا حصہ بناتی جارہی ہے جو انتہائی قابل مذمت افسوسناک حیرانگی پشیمانگی شرمندگی ندامت کے سوا کچھ نہیں اور چند ایسے لوگ اب شعبہ صحافت میں ایسے باقی بچے ہیں جو مثبت انداز سے صحافت کرنے کی غرض سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔اور ان ہی کی وجہ سے صحافت کے پاکیزہ ہونے اور صحافت کے بے باک ہونے کی خوشی اور فخر دل میں زندہ ہے ورنہ پاکستانی صحافت میں داخل ہونے والے نومولودوں مفاد پرستوں اور چور بازاری نظام کو تقویت دینے والوں نے تو اس مقدس شعبہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے حصول کیلئے اس مقدس پیشہ کو گہری ضربیں لگا کر اسے بدنام کرنے اور سوسائٹی میں اس کیک منفی اثرات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا اور مجھے اس امر پر بھی شرمندگی ہوگی کہ ان عناصر نے ملک کے چوتھے ستون کا لبادہ اوڑھ کر جو کچھ کیا اور جو کچھ کررہے ہیں اس کے باعث معاشرتی نظام عجیب ذہنی تناؤ کا شکار ہوئے ہیں ویسے تو صحافت کے بہت زیادہ حصے ہیں لیکن اگر انہیں بڑے بڑے حصوں میں تقسیم کیا جائے تو وہ 4حصوں پر مشتمل ہے۔،پروفیشنل صحافی، شوقیہ صحافی،منشی صحافی،اور حادثاتی صحافی،پروفیشنل صحافی وہ طبقہ ہے جن کا اوڑنا بچھونا صحافت پر منحصر ہوتاہے,بطور صحافی ان کی شناخت اور صحا فت میں کردارقابل قدر ہوتا ہے,سرکاری اور عوامی حلقوں میں ان کو اہمیت دی جاتی ہے,دوسرا طبقہ ہے،شوقیہ صحافی,یہ وہ طبقہ ہے,جو تشہیر یا سرکاری اور عوامی حلقوں کی پزیرائی سے محروم اپنے شوق کی تسکین کے لئے صحافت کے شعبہ سے منسلک ہوتا ہے،تیسرا طبقہ ہے منشی صحافی کا یہ بہت مظلوم طبقہ ہے،یہ کسی مجبوری کے باعث صحافت سے وابستہ ہوتے ہیں،نٹ میڈیا میں ان کا کردار سینئیر صحافیوں اور دیگر صحافیوں کی خبر اداروں کو بھیجنا اور پھر ان اخبارات کو اکٹھا کرنا،ان کی خود ساختہ ذمہ داری بن جاتی ہے،جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں ان کا کردار لوگو اور کیمرہ پکڑ کر فوٹیج بنانا اور پھر سینئیر صحافیوں کے احکامات کے مطابق چینلز میں بھیج کر ان کی ریکارڈنگ کرنا ہے خبریں تو جن اخبارات اور چینلز میں چلتی ہیں تو اصل کریڈٹ تو متعلقہ نمائندوں کو جاتا ہے جبکہ،بلے بھئی بلے،بہت خوب،بہت اچھا کام چھا گئے ہو جیسے الفاظ سے ان کی بھی پزیرائی ہو جاتی ہے مگر اس مخصوص حلقہ سے باہر بطور صحافی کی شناخت سے یہ لوگ محروم رہتے ہیں چوتھا طبقہ ہے حادثاتی صحافی#ان کا عمومی طور پر اپنے خلاف چلنے والی خبروں سے بچاؤ کیلئے اپنی اصلاح کرنے کیلئے صحافت کا لبادہ اوڑھ کر دھڑلے سے اپنا کام جاری رکھتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے خلاف ہونے والی زیادتی کے جواب میں صحافت کا شعبہ اختیار کرتے ہیں ان میں سے معاشی طور پر غیر مستحکم صحافی منشیانہ صحافت تک محدود رہتے ہیں جبکہ معاشی طور پر مستحکم سرمایہ دار بہت جلد صحافت میں نام بنا کر صحافت کے سابقہ ٹھیکیداروں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر سینئیر صحافیوں کی صف میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں جس سے سینئیر صحافیوں کی بادشاہت کو جھٹکا لگتا ہے،جس کے بعد بادشاہت قائم کرنے کے لئے ملکی صوبائی اور ضلعی سطح پر صحافتی تنظیمیں یا ان کی ذیلی تنظیمیں معرض وجود میں آتی ہیں ان تنظیموں کی تشہیر کے لئے منشی صحافی حادثاتی صحافی اور شوقیہ صحافیوں کی بڑی تعداد آسانی سے میسر ہو جاتی ہے۔ان تمام مراحل میں زیادہ تر صحافت پس پشت چلی جاتی ہے ذاتی مفادات کو اہمیت اور ترجیح دی جاتی ہے جو کہ صحافت کے مقدس شعبہ کی تضحیک کی بنیادی وجہ بنتا ہے۔اگر سینئیر صحافیوں نے آپسی رنجشوں اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صحافت کے معیار ،صحافیوں کی فلاح و بہبود اور اتحاد کے لئے اجتماعی طور پرعملی اقدامات نہ کئے تو یاد رکھیں کہ وہ وقت نہیں دور جب سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں صحافیوں کا داخلہ پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہو گا عوامی اور سرکاری سطح پر صحافت کی قدر و اہمیت کی بجائے ذاتی تعلق کی بنیاد پرتقسیم پیدا کر دی جائے گی فیصلہ اب آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ہمیں مثبت انداز سے ایسے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کی وجہ سے صحافت جیسے مقدس پیشہ کو محفوظ مضبوط غیر جانبدار بنایا جا سکے اور ملک چوتھے ستون کو مضبوط بنانے کیلئے ایسے عناصر کا محاسبہ اور ان کا قلع قمع بھی ممکن بنانے کیلئے حقیقی معنوں میں ایسے تمام لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جو عوام کے بنیادی حقوق اور ان کے مسائل کے حل کیلئے قلم اٹھاتے ہیں تاکہ صحافت جیسے مقدس پیشہ کو معاشرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالنے اور مثبت سوچ اور فکر کو بہتر انداز سے زندہ رکھنے میں بھرپور مدد مل سکے۔۔( ڈاکٹر شیخ سمیرسمی )

(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا مصنف کی تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں، اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ اپنا موقف ہمیں دے سکتا ہے جسے ہم ضرور شائع کریں گے، علی عمران جونیئر)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں