علی عمران جونیئر
دوستو،کویت میں ایک دلہن نے اپنے شوہر کی جانب سے بیوقوف کہنے پر نکاح کے صرف 3 منٹ بعد ہی عدالت میں نکاح ختم کرنے کی درخواست دے دی۔عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نکاح کی قانونی کارروائی مکمل ہونے پر جوڑا عدالت سے نکل رہا تھا کہ اسی دوران دلہن کسی چیز سے الجھ کر گر پڑی، جس پر دولہا نے اسے بے وقوف کہہ دیا۔اتنے میں دلہن کو بھی غصہ آگیا اور اس نے فوری طور پر جج سے نکاح ختم کرنے کی درخواست کر دی۔رپورٹ کے مطابق جج نے درخواست قبول کرتے ہوئے نکاح کے ٹھیک تین منٹ بعد نکاح خارج کرنے کی دستاویز جاری کر دی۔رپورٹ کے مطابق اسے کویت کی تاریخ کا مختصر ترین نکاح قرار دیا جا رہا ہے۔
ہمارے حساب سے طلاق لینے والی کویتی خاتون یا تو ذہنی مریض تھی یا پھر ہائی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کی شکار۔۔ ایک سروے کے مطابق خواتین کے بلڈ پریشر بڑھنے اور ڈپریشن کی علامات ظاہر ہونے کی چند مختصر وجوہات کچھ اس طرح سے ہیں۔۔ 32 نمبر کا ہیئرکلر نہیں مل رہا۔۔کٹ پیس میلہ ختم ہوگیا لیکن ایک بھی سوٹ نہیں خریدا جا سکا۔۔ خالو کے بیٹے کی سالی کی بیٹی کی شادی طے کرتے وقت مجھ سے مشورہ کیوں نہیں لیا گیا۔۔نئی جوتی کے اوپر لگا جو موتی ٹوٹ گیا تھا وہ کہیں سے نہیں مل رہا۔۔پڑوسن کون سے بیوٹی پارلر جاتی ہے۔۔خالہ صغراں نے جو رنگ گورا کرنے والی ذاتی کریم بنائی ہے اُس کا نسخہ کیا ہے۔۔شوہر کسی بات میں میری حمایت کیوں نہیں کرتا۔۔سُسرال والوں نے نیا اے سی کیسے لگوا لیا۔۔نئے کپڑوں کے ساتھ میچنگ دوپٹہ نہیں مل رہا۔۔دوست بتارہی تھی کہ اس نے فوٹو شاپ سے دس منٹ میں اپنا رنگ گورا کیا ہے’ یہ فوٹو شاپ ملتی کہاں سے ہے۔۔بھوک نہیں لگتی، وزن مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، پاؤں میں جلن رہتی ہے، یقیناً شوگر ہو گئی ہے۔۔شوہر چھپ چھپ کر اپنے گھر والوں کی مالی مدد کرتا ہے۔۔سسرال والوں نے کبھی مجھے بہو تسلیم نہیں کیا۔۔شناختی کارڈ میں میری عمر غلط لکھی ہوئی ہے۔۔بھائی کی شادی پر مجھے سب سے گھٹیا سوٹ دیا گیا۔۔سب سمجھتے ہیں کہ میں بونگیاں مارتی ہوں۔۔میری قسمت میں سکون نہیں۔۔میں سب کا خیال رکھتی ہوں لیکن کوئی میرا خیال نہیں رکھتا۔۔سامنے والے ہمسائے کے گھر چاول بھیجے تھے’ دو ماہ ہو گئے ابھی تک انہوں نے کوئی چیز کیوں نہیں بھیجی۔۔میکے جانے پر بھابیاں مجھے اکیس توپوں کی سلامی کیوں نہیں دیتیں۔۔میرے بھائی ‘رن مرید’ کیوں ہو گئے ہیں۔۔میں ہمیشہ صحیح بات کرتی ہوں پھر بھی کوئی برداشت کیوں نہیں کرتا۔۔میرے حصے میں ہمیشہ پرانا موبائل کیوں آتا ہے؟۔مجھے کسی کی نظر لگ گئی ہے۔۔میرا ہر خواب سچا کیوں ہونے لگا ہے۔مجھ میں یقیناً روحانی صلاحیتیں پیدا ہوگئی ہیں۔۔سسرال والے مجھ سے ہر با ت چھپاتے ہیں۔۔کاش میرے نصیب میں میرے جیسے کوئی خاندانی لوگ ہوتے۔۔ کیا میں موٹی ہوں؟محلے کے بچے مجھے آنٹی کیوں کہتے ہیں۔۔سارے رشتہ دار ہم سے جلتے ہیں۔۔کاش میں نے گھر والوں کی مرضی مان لی ہوتی۔۔شوہر کو میری سالگرہ کی تاریخ یاد نہیں رہتی۔۔میں کتنی مظلوم ہوں۔۔میں چپ رہتی ہوں پھر بھی ہر کوئی میرے خلاف کیوں ہے۔۔بچے نہ ہوتے تو میں کوکنگ کلاسز اٹینڈ کرتی۔۔صرف میں ہی دُکھی ہوں باقی سب بہت خوش ہیں۔۔کیا نئی لپ اسٹک کا شیڈ ٹھیک ہے۔۔ درزی نے چاک لمبے کیوں رکھ دیے ہیں۔۔
اک مرتبہ میاں بیوی کسی گاؤں گئے۔وہاں ایک کنواں تھا۔ جس میں سکّہ ڈالنے سے مراد پوری ہوجاتی تھی، پہلے شوہر نے ایک روپیہ پھینکا اور دعا کی۔۔ پھر بیوی نے آگے بڑھ کر ایک روپیہ کنویں میں پھینکنے کی کوشش کی مگر توازن کھوکر کنویں میں جاگری۔۔ یہ دیکھ کر شوہر کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔ آسمان کی طرف دیکھ کر بولا۔۔”اینی چھیتی” یعنی اتنی جلدی۔۔ہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس ایپ پر بہت عجیب سے میسیج کیا۔طویل میسیج کچھ اس طرح سے تھا کہ۔۔میں دوپہر کو پورچ میں بیٹھا تھا کہ اس دوران ایک السیشن نسل کا خوبصورت لیکن انتہائی تھکا ماندہ سا چھوٹا کتا کمپاؤنڈ میں داخل ہوا،اس کے گلے میں پٹہ بھی تھا۔میں نے سوچا ضرور کسی اچھے گھر کا پالتو کتا ہے۔میں نے اسے پچکارا تو وہ پاس آ گیا۔میں نے اس پر محبت سے ہاتھ پھیرا تو وہ دم ہلاتا وہیں بیٹھ گیا۔بعد میں میں جب اٹھ کر اندر گیا تو وہ کتا بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا آیا اور کھڑکی کے پاس اپنے پاؤں پھیلا کر بیٹھا اور میرے دیکھتے دیکھتے سو گیا۔میں نے بھی کمرے کا دروازہ بند کیا اور صوفے پر آ ن بیٹھا۔تقریبا ایک گھنٹے نیند کے بعد کتا اٹھا اور دروازے کی طرف گیا تو اٹھ کر میں نے دروازہ کھول دیا،وہ باہر نکلا اور چلا گیا۔اگلے دن اسی وقت وہ پھر آ گیا۔کھڑکی کے نیچے ایک گھنٹہ سویا اور پھر چلا گیا۔اس کے بعد وہ روز آنے لگا۔آتا، سوتا اور پھر چلا جاتا۔۔میرے ذہن میں تجسس دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہاتھا کہ اتنا شریف، سمجھدار اور پیار کرنے والا کتا آخر ہے کس کا اور کہاں سے آتا ہے؟ایک روز میں نے اس کے پٹے میں ایک چٹھی باندھ دی،جس پر لکھ دیا۔۔ آپ کا کتا روز میرے گھر آکر سوتا ہے،یہ آپ کو معلوم ہے کیا؟اگلے دن جب وہ پیارا چھوٹا سا کتا آیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پٹے میں ایک چٹھی بندھی ہوئی ہے۔اسے نکال کر میں نے پڑھا۔اس میں لکھا تھاکہ۔۔ یہ بہت اچھا پالتو کتا ہے، میرے ساتھ ہی رہتا ہے لیکن میری بیوی کی دن رات کی جھک جھک،بک بک کی وجہ وہ چین سے سو نہیں پاتا اور روز ہمارے گھر سے کہیں چلا جاتا ہے،اگر آپ اجازت دے دیں تو کیا میں بھی اس کے ساتھ آ سکتا ہوں؟
بیگم نے موبائل مانگا شوہر نے دے دیا، ساری چھان بِین کی جب کُچھ نہ مِلا تو تمام نمبرز دیکھے، ایک نیا نمبر مِلا جو ”لاوا” کے نام سے محفوظ تھا، تو فورا پوچھا یہ کِس کا نمبر ہے؟ شوہر بولا کہ ماموں اختر لاوا کا نمبر ہے۔شکی مزاج بیوی بولی، پہلے تو نہیں تھا ۔شوہر بولا کہ انہوں نے اب موبائل لیا ہے، اس لئے اب نمبر محفوظ کیا ہے۔بیوی کو یقین نہیں ہوا تو فوراََ اُس نمبر پر کال مِلائی۔کال اٹینڈ ہوتے ہی کسی عورت کی آواز آئی، ہیلو۔اِس نے بھی بولا ہیلو،بس کال کاٹ کے پھر بیچارے شوہر کو آن پکڑا، جو چیز ہاتھ میں آئی، بیلن ڈنڈے کُرسیاں برتن، غرض سب کُچھ میاں پہ برسا دیئے۔۔زخمی شوہر جب ہسپتال پہنچا تو پتہ چلا کہ ماموں اختر لاوا بھی زخمی ہو کر پہنچے ہوئے ہیں۔۔ان سے معلوم کیا کہ ماموں جان آپکو کیا ہوا؟ فورا بولے آپکے فون سے ایک عورت کی ہیلو کی آواز آئی بس کال کٹ گئی، پھر یہی کُچھ ہوا جو آپ کے ساتھ ہوا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے بے فکری کی نیند کبھی نہیں نصیب ہوگی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔