تحریر: شوکت علی مظفر
وہ سیکورٹی گارڈ تھا۔ جوان اور خوبصورت۔ جب بھی بات ہوتی تو وہ کہتا ، مجھے اس کام کی ضرورت نہیں ۔ یہ تو ویسے ہی کرتا ہوں۔ میں نئی نوکری پر آگیا اور کچھ عرصے بعد اُسے ایک رات آوارہ گردی دیکھا تو حال چال پوچھا۔ رونی صورت بنا کر بولا، صاحب کوئی کام ہو تو بتانا۔ کب سے نوکری ختم ہوگیا ہے۔ میں نے تسلی اور دعا دونوں دی اور اپنی راہ چل پڑا۔
وہ ویڈیو ایڈیٹر تھا۔ اچھے چینل پر نوکری کے علاوہ ایک اور جگہ پارٹ ٹائم کررہا تھا۔ ہفتے میں ایک ملاقات اسی پارٹ ٹائم والی جگہ پر ملاقات ہوتی۔ وہ کہتا، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ بس ٹائم پاس کیلئے کررہا ہوں۔ پھر کچھ عرصے بعد اس کی کال آئی۔ کوئی نیا کام ہو تو بتانا۔ وہ نوکری ختم ہوگئی، بڑا پریشان ہوں۔
وہ اَداکارہ تھی۔ میر ے اپنے ڈرامے کے سیٹ پر ملاقات ہوئی، باتوں باتوں میں کہنے لگی، اس ڈرامے میں کام کی ضرورت نہیں مجھے، بس ایسے ہی کررہی ہوں۔ اتفاق کہ دوچار قسطوں کے بعد چینل نے اس کی جگہ کسی اور کو کاسٹ کرنے کے آرڈر کردیئے اور وہ روپڑی کہ کسی طرح ایڈجسٹ کرلیا جائے مگر میرے بس میں کچھ نہ تھا۔
”مجھے اس کی ضرورت نہیں” کے جملے سے مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو سنتا دیکھتا ہوں تو ان کیلئے عقل کی دعا کرتا ہوں کیونکہ اللہ نے ہمیں جو چیزیں عطا کر رکھی ہیں اُن کی کہیں نہ کہیں ضرورت لازم ہوتی ہے مگر ہم اُسے غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ غیر اَہم جانتے ہیں۔ اور جب وہ چیز ہم سے چھن جاتی ہے تو تب عقل آتی ہے کہ وہ ہمارے لیے کتنی ضروری تھی۔ لہٰذا جو حاصل ہے اس پر شکر کریں، جو چاہئے اس کیلئے دعا کریں۔ اللہ آپ کے معاملات کو آپ سے بہتر جانتا ہے، مگر عقل سے پیدل ہم لوگ ” مجھے اس کی ضرورت نہیں ”بول کر اپنا نقصا ن کر لیتے ہیں اور اللہ یہ ضرورت کسی اور کو منتقل کردیتا ہے۔ (شوکت علی مظفر)