تحریر: احسان سبز
کہیں پڑھا تھا کہ اسٹوڈنٹ بریانی بنانے والے نے اپنا کام معمولی ٹھیے سے شروع کیا، فٹ پاتھ پرسٹول آئے پھر کرسیاں لگیں، ٹھیلے سے پکا کیبن بنا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیبن کی جگہ چھوٹی سی دکان نے لے لی، پھر دکان پر رش کا یہ عالم رہتا کہ دیگ کٹنے سے پہلے ہی فروخت ہوچکی ہوتی، یونہی برکت ہوتی رہی، دکان سے عمارت اور عمارت سے عمارتیں بنتےبنتے اسٹوڈنٹ بریانی بین القوامی برانڈ بن گیا جس کی فرنچائز ملک کے کئی شہروں کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی کُھل گئیں۔
کسی زمانے میں ہمارے والد کا لوہا کاٹنے کا کارخانہ تھا، دروازے، کھڑکیاں، گِرلیں، گارڈر کی چھتیں سب تیار ہوا کرتی تھیں، وہاں پر اُنکے ساتھ ایک بچہ آکر لگ گیا۔ نام وام تو اللہ جانے کیا تھا سب اسے بابو بلانے لگے۔ بابو محنتی تھا، کام اگرچہ مشکل اور مشقت طلب تھا مگر وہ لگا رہا۔ والد نے کارخانے سے ہونے والی آمدنی سے دوسرا کاروبار شروع کیا، وہ بھی چل پڑا تو مصروفیات کے باعث کارخانہ اور اس کا انتظام مکمل طور پر بابو کے سپرد کر دیا۔ بابو نے والد کے بھروسے کا حق ادا کیا اور آج وہ زندہ ہوتے تو بابو کے زیر انتظام چلنے والے کارخانے کی ترقی دیکھ کر پھولے نا سماتے۔
والد کے اُن دنوں ایک دوست کوئٹہ کے جمعہ خان تھے، ٹرانسپوٹ کا بزنس چلاتے اور خوب کماتے کھاتے۔ کوئٹہ کراچی کوئٹہ کے روٹ پر انکی کوچ سروس مشہور برانڈ بن گئی۔ اُنکا ایک بیٹا زائر کاروباری سوجھ بوجھ میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے تھا لیکن اپنے پیروں پر خود کھڑے ہونے کا جنونی، میرے بڑے بھائی کے مطابق زائر نے سائیکل بیچ کر ٹوٹا پھوٹا رکشہ لیا، اُسے بنایا اور کچھ دن چلایا، پھر بیچ کر ایک گاڑی لی، گاڑی کے سودے میں برکت ہوئی تو اِدھر اُدھر سے کر کرا کر ایک بس لے لی اور ترقی کرتے کرتے ایک سے کئی ایک بسیں۔
میں نے جب خبر بنانا سیکھنی شروع کی تو عمر شاید زائر اور بابو کے کیرئیر کے ابتدائی ادوار جیسی ہی ہوگی، دل لگا کر محنت کی، ایمانداری سے ڈیوٹی نبھائی، ڈانٹیں کھائیں، لوگوں کو پڑھا، نیا جاننے اور کرنے کی کوشش کی، تلخ و شیریں تجربات سے گزرا، کبھی خوشی کبھی غم کی کئی دفتری ایپیسوڈز دیکھیں اور ترقی کی منازل سُستی ہی سہی لیکن طے کیں۔
اچھا ۔۔ خبردینا بڑا بھیانک کام ہوچکا ہےخصوصاً آج کے ٹی وی کی خبر ۔۔ یوں لگتا ہے کہ نعوزوباللہ قیامت میں سور پھونکنے کی خبر بھی بریک کرنے کے بعد میدان حشر جانے کی اجازت ملے گی۔ جب عوامی چھٹی یا عید بقرعید پر لوگ گھروں میں ہوتے تو ہمارا کام بڑھ جاتا، اسپیشل ٹرانسمیشنز، سیگمنٹس، خصوصی شوز اور جانے کیا کیا منجن و منورنجن ۔۔ پبلک کا دل بہلانے کے لئے ہم سالوں سے اپنے دلوں کو ہر خاص دن بیناڈرل پِلا کر سُلاتے رہے ہیں۔
خیر جو ہوا سو ہوا ۔۔ لیکن اب جو ہو رہا ہے وہ یہ کہ ہم پیشہ ور صحافی اداروں سے فارغ کئے جارہے ہیں۔ بہت ساری وجوہات ہیں جو بتائی گئیں۔ اداروں کے اخراجات میں اضافہ، آمدنی میں مبینہ کمی، اداریتی پابندیاں، ملٹائے ٹاسکنگ اپروچ کا فروغ اور سب سے بڑھ کر میڈٰیا ہاوسس کی سیاسی وابستگیاں جن کا اثر صحافیوں پر ہر اچھے برے دور میں پڑتا رہا ہے۔ میں اگر زائر یا بابو ہوتا تو بس فروخت ہونے یا کارخانہ بند ہوجانے پر کہیں ڈرائیوری یا مزدوری کر لیتا۔ اسٹوڈنٹ بریانی کا ٹھیا اینٹی انکروچمنٹ والے اٹھا لے جاتے تو حاجی علی جان پکوان یا اصغر باورچی نوکری دے دیتا لیکن جو واحد ہُنر مجھے آتا ہےاور جسے سیکھنے اور مسلسل آزماتے رہنے کے چکر میں سالوں پر محیط وقت اور تحوار سب وار دئیے وہ ہنر اب لے کر کہاں جاوں ؟ کس سے کہوں کے میری تازہ خبریں خرید لے ؟ گرما گرم سرخیاں، چٹپٹی ہیڈلائنز، اپنے کالم، اسکرپٹس، پیکچز اور آئیڈیاز لے کر کسی منڈی کا رُخ کروں ؟ ارے کوئی یہی بتادے کہ مال بیچا کیسے جاتا ہے کیوں ہم ٹی وی اخبار والوں کو تو یہ جاننے کا بھی موقع نا مل سکا۔
دیگر شعبوں جیسے بینکنگ کو لے لیں اس عمر میں آکر لوگ سیٹل ہوجاتے ہیں، اچھی تنخواہیں حاصل کرتے ہوئے ماتحتوں کو سکھاتے اور کام کرواتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے۔ جب اعصاب، کمریں اور ہاتھ پیر ساتھ نہیں دے رہے تو محنت مزدوری درپیش ہے۔ ایک یہی کام ہے جس کے لئے کسی ٹریننگ کی ضرورت نہیں۔ کاش گزرے وقتوں میں اِس خیال کو سیرئیس لیا ہوتا۔
کروں گا کیا جو صحافت میں ہوگیا ناکام۔۔مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔(احسان سبز)