تحریر: مبشر علی زیدی
وائس آف امریکا اور چار دوسری نشریاتی اداروں کو امریکی حکومت کا جو ادارہ دیکھتا ہے، اس کا نام یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فور گلوبل میڈیا یا یو ایس اے جی ایم ہے۔صدر ٹرمپ نے قدامت پرست فلم ساز مائیکل پیک کو اس کی سربراہی کے لیے نامزد کیا تھا جنھوں نے گزشتہ سال عہدہ سنبھالا۔
آتے ہی اکھاڑ پچھاڑ کی، جمے جمائے لوگ نکالے، غیر ملکی صحافیوں کے ویزے بند کیے اور اردو سروس کے پانچ افراد کو معطل کیا۔اردو والوں پر الزام یہ تھا کہ جو بائیڈن کے مسلمانوں سے خطاب کی خبر کیوں چلائی۔ یہ تو انتخابی مہم ہوگئی۔
ہماری ساتھی تابندہ نعیم منیجنگ ایڈیٹر اور مستقل ملازم تھیں اس لیے انھیں جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔ باقی چاروں کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کردیا گیا۔ ان میں سے ایک میں تھا۔میں نے بار بار بتانے کی کوشش کی کہ اول تو الزام غلط ہے۔ لیکن اگر درست بھی ہو، تو میں اس میں کہیں ذمے دار نہیں۔ خبر کسی اور نے منتخب کی، سوشل میڈیا لیڈ کوئی اور، منیجنگ ایڈیٹر کوئی اور، ویڈیو دیکھنے والا کوئی اور، پوسٹ کرنے والا کوئی اور تھا۔
میں نے فقط خبر لکھنے والے کے اسکرپٹ پر ایک نظر ڈالی تھی۔ میرے بعد منیجنگ ایڈیٹر نے مزید اصلاح کی تھی اس لیے ذمے دار وہ ہوگئیں۔اچھا، اگر غلطی ہو بھی گئی تو وہی خبر ریڈیو پر چلی، اس کے ذمے داروں کو کیوں کچھ نہیں کہا گیا۔ وہی خبر فیس بک بلیٹن میں چلی۔ اس کے ذمے داروں کو کیوں کچھ نہیں کہا گیا۔ یہ تو صاف ڈس کریمنیشن ہے۔ساری آڈیو، ویڈیو فائلیں، ای میلیں، میسجنگ میرے پاس محفوظ ہے۔وائس آف امریکا اور یو ایس اے جی ایم میں کسی نے میری بات نہیں سنی۔
امریکا میں کنٹریکٹرز کا ایک کمیشن تنازعات کا تصفیہ کرتا ہے۔ مجھ سمیت تین کنٹریکٹرز نے اس میں اپیل کردی۔ ایک ساتھی سیدھی عدالت چلی گئیں۔وائس آف امریکا کے چند اہم ملازمین نے بھی مائیکل پیک کی بے جا مداخلت پر مقدمہ کردیا۔ اس کی ایک فریق پروگرامنگ ڈائریکٹر کیلو چاؤ تھیں۔ انھوں نے اپنی درخواست میں خاص طور پر ہمارا ذکر کیا کہ جو غلطی ہوئی، اس کی حد سے زیادہ سزا دی گئی۔ کیس کی فائل میں خاصی تفصیل سے ہمارا ذکر تھا۔
اتفاق یہ ہوا کہ چند ماہ بعد الیکشن تھے۔ جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ الیکشن جیتے تو مائیکل پیک کو فارغ کردیں گے۔ہمارا امریکی سیاست سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ لیکن اس اعلان نے ایک امید پیدا کی۔اردو سروس چیف کوکب فرشوری نے بھی حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ جو بائیڈن جیتیں گے اور الیکشن کی رات ہی مائیکل پیک مستعفی ہوجائیں گے۔
ادھر کنٹریکٹرز کمیشن میں پیش ہونے والے وائس آف امریکا کے وکلا نے بھی کیس کا دفاع کرنے سے انکار کردیا اور مجھے فون کرکے کہا کہ ہم الیکشن تک کی مہلت مانگیں گے۔ آپ اعتراض مت کیجیے گا۔ میں نے ویسا ہی کیا۔الیکشن کی نشریات چند گھنٹوں کے بجائے کئی دن چلی اور ٹرمپ نے شکست ماننے سے انکار کردیا۔ چنانچہ مائیکل پیک بھی مستعفی نہیں ہوئے۔
مہلت ختم ہونے والی تھی کہ مجھے وائس آف امریکا کی وکیل نے فون کیا۔ اس نے کہا کہ ہم مزید مہلت مانگیں گے۔ بیس جنوری کو صدر بائیڈن حلف اٹھالیں گے تو ہم سیٹلمنٹ کرلیں گے۔انھوں نے کمیشن کو درخواست میں خاص طور پر سیٹلمنٹ کا ذکر کیا اور میں نے اعتراض نہیں کیا۔ جج نے مہلت دے دی۔بیس جنوری کو صدر بائیڈن نے حلف اٹھالیا۔دو گھنٹے کے اندر انھوں نے مائیکل پیک سے استعفا لے لیا۔مائیکل پیک کے خلاف کیس کرنے والی کیلو چاؤ کو یو ایس اے جی ایم کا نیا قائم مقام سربراہ بنادیا گیا۔یکم فروری کو تابندہ نعیم کو واپس بلالیا گیا۔صدر بائیڈن کے حلف اٹھانے کے بعد میں نے ایک ہفتہ صبر کیا اور پھر کیلو چاؤ، سروس چیف کوکب فرشوری اور وائس آف امریکا کے وکلا کو ای میلز کرنا شروع کردیں کہ اب کس بات کا انتظار ہے؟
لوگوں نے فون اٹھانا چھوڑ دیے۔ واٹس ایپ میسجز پڑھتے تھے لیکن خاموش رہتے تھے۔ ای میلز کا جواب نہیں آیا۔
عام طور پر لوگوں کو ایک ٹرمنیشن لیٹر دیا جاتا ہے۔جمعہ پانچ فروری کو ہمیں ایک ہی ملازمت سے برطرفی کا دوسرا خط ملا۔اس میں لکھا ہے کہ آپ کی ٹرمنیشن فور کاز کو ٹرمنیشن فور کنوینینس میں بدل دیا گیا ہے۔اس کا کیا مطلب؟
ٹرمنیشن فور کاز میں الزام لگایا جاتا ہے اور کورٹ میں اس کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ٹرمنیشن فور کنوینینس کا مطلب ہے، بس، ہمیں ضرورت نہیں۔ ہماری مرضی۔ضرورت کا حال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں اردو سروس میں سات اسامیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔
جمعہ کو نیا ٹرمنیشن لیٹر ملنے کے بعد میں نے ایک خط میں اس ناانصافی کی تفصیل لکھی۔ خط لکھنے میں ایک گھنٹا لگا۔
پھر امریکی ایوان نمائندگان کے دو سو اکیس ڈیموکریٹ ارکان کے نام اور پتے انٹرنیٹ سے ڈھونڈے۔ اپنے پرنٹر سے ہر ایک کے نام خط پرنٹ کیا۔ چار گھنٹے لگے۔امریکی سینیٹ کے پچاس ڈیموکریٹ ارکان کے نام اور پتے ڈھونڈے۔ ہر ایک کے نام خط پرنٹ کیا۔ ڈیڑھ گھنٹا لگا۔امریکی کابینہ کے تمام ارکان کے نام اور پتے ڈھونڈے۔ ہر ایک کے نام خط پرنٹ کیا۔ ایک گھنٹا لگا۔ان کے علاوہ امریکی صدر، نائب صدر، وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف، امریکی سپریم کورٹ کے ججز، سب کے نام خط پرنٹ کیے۔تمام ایڈرس پرنٹر سے پرنٹ کیے۔تین سو لفافے بند کرنے ہی میں دو گھنٹے لگ گئے۔جمعہ کو ساری رات جاگا اور ہفتے کی صبح ڈاک خانے جاپہنچا۔جس کاؤنٹر پر پہنچا، اس کی مہربان خاتون نے پیشکش کی کہ آپ کو ڈاک ٹکٹ دے دیتی ہوں، لفافوں پر لگاکر پوسٹ بکس میں ڈال دیں۔ کام آسان ہوجائے گا۔میں نے کہا، ای میل کرنا زیادہ آسان تھا۔ لیکن لوگوں کے پاس بہانہ ہوتا ہے کہ دیکھ نہیں سکے۔ جنک بکس میں چلی گئی۔رات بھر خط پرنٹ کرکے بھیج رہا ہوں تو کوئی بہانہ نہیں دینا چاہتا۔ سب رجسٹری سے بھیجوں گا۔وہاں بھی دو ڈھائی گھنٹے لگے۔ لیکن گھر آکر سکون کی نیند آئی۔
سو لفظوں کی کہانی لکھنے والے کو تجربہ ہے کہ لوگ طویل تحریر نہیں پڑھتے۔ اس لیے چند سطروں میں ساری بات لکھی ہے۔
ایک جملہ یہ کہ جو بائیڈن کی خبر چلانے پر وائس آف امریکا سے نکالے جانے والوں کے ساتھ ناانصافی جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد بھی کیوں جاری ہے؟تین سو بااثر ڈیموکریٹ رہنماؤں میں کسی ایک نے بھی خط پڑھ لیا، نوٹس لے لیا اور ہاتھ تھام لیا تو مشکل آسان ہوجائے گی۔اتنے شاندار، کامیاب اور ترقی یافتہ ملک میں ایسی ناانصافی نہیں چل سکتی۔انصاف ملنے میں تاخیر ہوسکتی ہے لیکن انصاف کا خون نہیں ہوسکتا۔(مبشرعلی زیدی)
(یہ تحریر معروف صحافی مبشرزیدی کی وال سے لی گئی ہے، ہماری نیک خواہشات اور بہت سی دعائیں اپنے دوست کے لئے ہیں کہ اللہ ان کیلئے آسانیاں فرمائے، آمین۔۔ علی عمران جونیئر)۔۔