تحریر: خرم علی عمران
ہمارے قومی مشاغل میں سازشی تھیوری بنانا،پھیلانا اور پھر اس پر نہ صرف خود یقین کرلینا بلکہ اوروں کو یقین دلانا بڑا اہم مشغلہ ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ہماری پہچان اور علامت بنتا جارہا ہے۔ تھڑوں پر بیٹھے مختلف چاچے مامے، ہوٹلوں اور بنچوں پر دھواں اڑاتے پریشان نظر آنے والے بے روزگاروں سے لے کر عالیشان ڈرائنگ رومز میں کافی اور چائے پر دانشوری جھاڑنے والے امراء تک یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک۔کراچی سے خیبر تک،لاہور سے کوئٹہ تک ہر ہر پاکستانی اپنے اس دلپسند شغل کو اپنائے اور سینے سے لگائے نظر آتا ہے کہ کیا کیا اور کون کون سی سازشیں اسلام اور پاکستان کے خلاف کن کن جگہوں پر ہورہی ہیں ،کون کون کررہا ہے اور انکا توڑ کیا ہے ہمیں سب پتہ ہوتا ہے یا لگ جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں دنیا والوں کو اس کے سوا اور کوئی کام نہیں کہ وہ ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہیں۔ ہمارے حساب سے ہم ایک نابغہ ئ روزگار قسم کی قوم ہیں جنہیں اگر سازشوں کاشکار نہ بنادیا جاتا اور اب بھی بنایا جارہا ہے تو ہم دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم بن چکے ہوتے۔
ہماری ترقی کی چکاچوند سے دنیا کی آنکھیں خیرہ ہو چکی ہوتیں۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی معراج پر ہوتے اور جو کچھ آپ آج کی سائنس فکشن فلموں میں دیکھتے ہیں نا یعنی مصنوعی ذہانت، ٹیلی پورٹیشن، ہولو گرافک کمپیوٹرزاور نہ معلوم کیا کیا الا بلا وہ سب ہم حقیقی دنیا میں استعمال کررہے ہوتے۔ ہمارا معیار تعلیم اتنا اونچا ہوتا کہ ہماری یونیورسٹیاں آئن اسٹائن،میکس پلانک اور نیوٹن جیسے سائنسدان پیدا کررہی ہوتیں اور دینا کی بہتریں یونیورسٹیز میں پہلی دس پاکستانی ہوتیں اور ہمارے مدارس موجودہ وقت کے رازی و غزالی و رومی پیدا کررہے ہوتے۔ہمارے ہر شعبہ ء زندگی میں ترقی و بلندی ہوتی مگر ان سازشوں اور سازشیوں نے بھیا سب خراب کردیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے۔
اب تازہ ترین سازشی تھیوری کرکٹ ورلڈ کپ کے حوالے سے سوشل میڈیا،الیکٹرانک میڈیا اور حتی کہ پرنٹ میڈیا میں بڑی ہٹ اور ان ہے کہ بھیا ہم تو سب کا پھلکا اڑا دیتے مگر کچھ ٹیموں نے ایک خفیہ ساز باز کرکے ہمیں ورلڈ کپ سے جبرا بے دخل کردیا۔ کچھ تو اتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ پھولتے سانسوں، لال سرخ چہروں اور غیظ و غضب میں ڈوبی آواز اور اپنی تحاریر میں یہ بات ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ ورلڈ کپ سے ہمارا اخراج اسلام اور پاکستان کے خلاف دیرینہ دشمنی کا بین ثبوت ہے۔ اور ہم ہارے نہیں ہرائے گئے اور نکلے نہیں نکالے گئے ہیں۔آج کل بات کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ ارے بھائی آپ کو کیا پتہ ہمارے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے اور ہوتا ہے۔ جب ہم ہاکی میں بادشاہ تھے تو ہاکی کا بین الاقوامی سسٹم ہی بدل دیا ، کھیل کا پورا طریقہ ہی چینج کردیا یہ سازش نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ اسکواش کے ہم دیوتاؤں میں سے تھے اب صرف اس تاؤ کی طرح رہ گئے جو ماضی کی اپنی فتوحات کے قصے سنا سنا کر بچوں اور بھانجے بھتیجوں کو پکاتا رہتا ہے۔ اور کرکٹ میں تو ہم سے بہتر کوئی کھیل ہی نہیں سکتا مگر کیا کریں سازش مار دیتی ہے نا۔ ہمیں ملی بھگت کرکے نکالا گیا ہے۔یہ اور اس سے ملتے جلتے بیانئے آج کل بہت بک رہے ہیں۔
ارے بھائی کوئی کیوں سازش کرے گا آپ کے خلاف اس کام کے لئے تو آپ خود ہی کافی سے زیادہ ہو اپنے پاؤں پرکلہاڑی بلکہ کلہاڑا مارنے پر اگر آسکر ایوارڈ جیسا کوئی ایوارڈ دیا جاتا تو کم از کم تیس چالیس ایوراڈ تو کہیں نہیں گئے تھے۔ اب اگر مجودہ کرکٹ ورلڈ کپ کی ہی بات کریں تو ایک عام ناظر کی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ جیسی بدتر پرفارمنس گراؤنڈ میں اور جیسی بدترین گراؤنڈ سے باہر ڈریسنگ روم وغیرہ میں دکھائی گئی اس کے نتیجے میں تو ٹیم کا ورلڈ کپ میں پانچویں نمبر پر بھی آجان کسی کرامت سے کم تو نہیں۔ ایسے کھیلتے ہیں ورلڈ چیمپیئن بننے کے خواہاں۔ اپس میں گروپ بندی، سفارشوں کی بھرمار۔انفرادی کارکردگی اور اپنے ریکارڈ کو بہتر بنانے کے لئے کھیلنا، ناقص پلاننگ کرنا اور میچ کی حکمت عملیاں نہ درست طور پر طے کرما اور جو طے کی گئیں ان پر درست طور پر عمل نہ کرنا اور بھی بے شمار باتیں جن پر ماہرین روشنی ڈال ہی رہے ہیں تو ان سب کے ہوتے ہوئے کسی کو ہمارے خلاف سازش کرنے یا خفیہ ساز باز کی ضرورت کیوں ہوگی بھلا بتائیے تو۔
پھر ایک بات اور بھی ہے نا کہ دنیا کی بہترین پروفیشنل ٹیموں سے جیتنے کے لئے محنت،مستعدی مہارت،ٹیلنٹ اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے جس کی بلاشبہ ہماری ٹیم میں کمی تو نہیں مگر بروقت استعمال کی شایدعادت نہیں رہی۔ اب ہر دفعہ ورلڈ کلاس مقابلوں میں جیتنے کے لئے آپ کے پاس جاوید میانداد،عمران خان، جہانگیرخان جان شیر خان،اصلاح الدیں،سمیع اللہ جسیے لیجنڈزیا رمضان المبارک تو نہیں ہوسکتے نا تو پھر دستیاب لاٹ سے ہی بہتر کام لینے اور باہمی مناقشت، منافرت، گروپ بندی اور منافقت سےباز رہنے کی کوشش کرنا پڑے گی ورنہ اسطرح ہوتا ہی رہے گا اسطرح کے کاموں میں۔ اور آپ بھی یہی کہتے نظر آؤ گے کہ مجھے کیوں نکالا کس نے نکالا؟
ویسے کبھی کبھی بہت دل روتا ہے کہ کھیلوں کی دنیا میں لیجنڈز پیدا کرنے والی قوم ،ایسے کھلاڑی پیش کرنے والی قوم جن کا ہمسر نہ انکے زمانے میں تھا نہ بعد میں آ سکا جن میں سے چند نام اوپر دیئے گئے اب ہیروز تو پیدا کررہی ہے مگر کھیلوں کے نہیں بلکہ ناچنے گانے تھرکنے والے ڈراموں اور فلموں کے ۔ خیر یہ بھی غنیمت ہی ہے۔کبھی دل میں یہ حسرت اور یہ خیال ضرور جاگتا ہے کہ وہ قوم جس نے کھیلوں کی دنیا میں کیسے کیسے لیجنڈز جن میں سے صرف چند نام اوپر بیان کئے گئے ہیں پیدا کئے اب اسے کیا ہوگیا ہے کہ ہر اس کھیل میں جس میں ہم بادشاہ ہوا کرتے تھے اب دلبرداشتہ سے ہوکر رہ گئے ہیں۔ ارباب اختیار خصوصا ہمارے کھلاڑی وزیر اعظم کو اس شعبے سے ایک تعلق خاطر ہونے کے ناطے سے کچھ توجہ دینے کی اور کھیلوں کے تمام تر معاملات مخلص اور اہل افراد کو سونپنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی عظمت رفتہ کو کسی اور میدان میں نہ سہی لیکن کھیلوں کے میدان میں تو حاصل کر ہی لیں جس کے لئے بلاشبہ ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔(خرم علی عمران۔۔)