تحریر۔ عمران اللہ مشعل
“دولت کے ہر ذخیرے کے پیچھے جرم کی ایک داستان ہوتی ہے” یہ جملہ شہرہ آفاق ناول “گارڈ فاڈر” سے لیا گیا جو کہ پانامہ کیس کے فیصلے کے شروع میں لکھا گیا تھا جسے موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا تھا۔اس مثال سے آسان لفظوں میں یہ سمجھانا تھا کہ جو لوگ ہمارے سامنے شریف اور مظلوم بنتے ہیں مگر ساتھ میں دولت کا زخیرہ بھی رکھتے انکے پیچھے پوری ایک جرم کی داستان ہوتی ہے وہ جرم کرپشن بھی ہوسکتی ہے، قتل و غارت بھی،اوراسی طرح آج بھی ہمارے درمیان ایسے سفید پوش لوگ موجود ہے جو دیکھنے میں مظلوم بھی نظر آ رہے معصوم بھی اور شریف بھی مگر انکی دولت کا حساب کیجائے تو انکا شرافت اور مظلومیت سے دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا ہے بلکہ وہی بات آتی ہے دولت کے ہر زخیرے کے پیچھے جرم کی ایک داستان موجود ہیں۔
مجیب الرحمان شامی جو کہ سینئر صحافی کے طور پے پہچانے جاتے ہے اور صحافی برادری میں ایک جید کی حثیت رکھتے ہیں۔ مگر انکے بھی زخیرے کھل گئے تو موصوف کے بھی وہی جرم والی داستان سامنے آگئ بے نقاب ہونے پر سابق چیف جسٹس کیخلاف آرٹیکل 6 لگانے کا مطالبہ کیا۔آرٹیکل 6 سنگین غداری کا کیس ہے جس میں کوئ بھی شخص ملکی آئین کی سنگین خلاف ورزی کریں تو انکے خلاف وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ غداری کا مقدمہ قائم کریں۔اب اس نکتے کی طرف آتے جس کی وجہ سے مجیب الرحمان شامی نے سابق چیف جسٹس کیخلاف آرٹیکل چھے کے تحت کاروائی کا مطالبہ کیا اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ آخر ثاقب نثار صاحب سے ایسا کیا جرم سرذد ہوا جس سے بات آرٹیکل چھے تک آگئ ہیں۔
سب سے پہلے یہ بات واضح کروں کہ آئین پاکستان کے تحت چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کو سوموٹو لینے کا مکمل اختیار حاصل ہے وہ کسی بھی معاملے پر سوموٹو لے سکتے ہے ۔اسکے علاوہ آئین کے آرٹیکل 183 بھی سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ مفاد عامہ کے کیسسز کو ٹیک اپ کرسکتے ہے اسی مفاد عامہ اور سوموٹو کی اختیار کے تحت میاں ثاقب نثار نے لاہور میں لاہور ڈویلپمنٹ اٹھارٹی کے تحت ماضی میں دی گئی پٹرول پمز کی لیز کیخلاف ازخود نوٹس لیا تھا۔جس میں انکشاف ہوا کہ مجیب الرحمان شامی صاحب جو کہ سینیر صحافی ہے اور جید مانے جاتے ہے اور دن رات سیاست دانوں اور عوام کو اخلاقیات اور کرپشن کیخلاف درس دیتا ہے مگر جب بات انکی آگئی تو وہ اسی بھی خود کرپشن کی بہتی گنگا سے ہاتھ صاف کر رہا تھا۔
مجیب الرحمان شامی کے بیٹے عمر شامی کے نام پر لاہور کے لبڑٹی جیسے علاقے میں ایک پٹرول پمپ صرف 15 ہزار ماہانہ گزشتہ 15 سال سے لیز پر تھا جس کے سالانہ ا لاکھ اسی ہزار روپے بنتے ہے۔۔اسکے علاوہ 6 اور پٹرول پمز انکی ملیکت میں تھے جو کہ مختلف جعلی ناموں سے رکھے تھے۔سپریم کورٹ نے نہ صرف وہ لیز کینسل کیا بلکہ دوبارہ نیلامی کرائ جس کے مطابق جو پٹرول پمز مجیب الرحمان شامی کو پہلے ماہانہ 15 ہزار روپے کی کرایہ پے ملے تھے وہ اب ماہانہ 40 لاکھ ماہانہ کرایہ پے نیلام ہوگئے جس کے سالانہ 4 کڑور 80 لاکھ بنتے ہے اب سوچئے کہاں 1 لاکھ 80 ہزار اور کہاں 4 کڑور 80 لاکھ اس طرح 24 اور پٹرول پمز تھے سب کے لیز کینسل کرکے دوربارہ اسی 40 لاکھ ماہانہ کرایہ پے دیے دیا گیا۔اب کوئ عقل کا اندھا بھی بتائے گا اس ازخود نوٹس سے پنجاب حکومت کو کتنا زیادہ منافع ملاجو پہلے چند ہزار ماہاناہ اور چند لاکھ سالانہ پے تھے اب اربوں میں آگیا۔
ایک تو یہ جرم ہے ثاقب نثار صاحب کا دوسرا جرم یہ ہے ایک بیوہ عورت جس سے مجیب الرحمان شامی کے بیٹے عمر شامی نے دو پلاٹ دینے کے عوض 2004میں 3 ٰکڑور سے زائد رقم لیا تھا مگر اب تک پلاٹ نہیں دیا وہ کیس بھی سپریم کورٹ میں آئ جس سے بھی مجیب الرحمان شامی کا مظلوم ،معصوم اور شریف چہرہ بے نقاب ہوایہ دو معمولی سے دو کیسز ہے جس پر شامی نے آرٹیکل 6 کا مطالبہ کیا۔عزت مآب سابق چیف جسٹس نے اپنے دور میں ٹوٹل 43 سوموٹو لیے جس میں کوئ یہ نہیں بتا سکتا ہے کہ ان سوموٹوز کیوجہ سے عام عوام کو کوئ نقصان پہنچا ہو جی ہاں نقصان پہنچا ہے تو قبضہ مافیاز کو پہنچا ہے بد معاشیہ کو نقصان پہنچا ہے۔ثاقب نثار پر سب سے زیادہ ہسپتالوں کے دوروں پے تنقید کیا گیا لیکن آج اگر ان ہسپتالوں کو دیکھا جائے تو 50 فیصد سے زیادہ پہلے کی نسبت بہتری آئ ہے یہ وہی سپٹالز تھے جہاں عام عوام کی علاج کیا جاتا ہے امیر تو لندن یا پرائیویٹ ہسپٹال جاتے ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار میاں ثاقب نثار کی وجہ سے میڈیا، قبضہ مافیاز اور کرپٹ ٹولوں کا نہ صرف گٹھ جوڑ بےنقاب ہوا بلکہ یہ گٹھ جوڑ ٹوٹ بھی چکا ہے۔
اب لوگوں کو شامی جیسے صحافیوں کی اصلیت کا پتہ چلا ہے کیسے سیاست دانوں کے ساتھ ملکر دولت کا زخیرہ بناتے رہے ہیں۔شامی صاحب اب وہ وقت بھی نہیں رہا لوگ آپکی زبانی کرپٹ سیاست دانوں کی تعریف سنیں گے جو آپ اپنی مخصوص انداز میں نا اہل شریفوں کی تعریف اور دفاع کیا کرتے تھے اب سوشل میڈیا کا دور ہےجہاں سب کے پاس قلم ہے وہ قلم جو بکتا نہیں ہے بلکہ حق لکھتا ہے۔( عمران اللہ مشعل۔)
(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)