تحریر: عطاالحق قاسمی۔۔
ان دنوں مجھ پر سستی چھائی ہوئی ہے شام کو گھر جانے کے بعد دوبارہ باہر جانے کو جی نہیں چاہتا جبکہ آئے روز مختلف نوعیت کی تقریبات میں شرکت کی دعوت ملتی رہتی ہے لیکن جب برادرم رائوتحسین کا فون آیا کہ وہ مجیب الرحمان شامی کے اعزاز میں افطار ڈنر دے رہے ہیں تو ظاہر ہے اس کے بعد انکار کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ بطور پرنسپل انفارمیشن آفیسر صحافیوں کے ساتھ جتنا رابطہ ان کا رہا تھا کبھی کسی اور کا نہیں رہا اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مجیب الرحمان شامی کے ہلال امتیاز ملنے پر ان کی دعوت پر لاہور بھر کے صحافی جس طرح چلے آئے اس سے جہاں رائو صاحب اور صحافیوں کے درمیان ابھی تک مضبوط رابطوں کا اندازہ ہوا وہیں مجیب شامی کے لئے دلوں میں بے پناہ عزت و احترام اور محبت کے فراواں ثبوت بھی دیکھنے کو ملے۔
میرا یہ اعزاز ہے کہ میں شامی صاحب سے اس وقت سے متعارف ہوں جب وہ کراچی میں اخبار جہاں سے وابستہ تھے ،بس اس وقت سے ان کے ساتھ نیاز مندی کا سلسلہ نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس میں روز افزوں اضافہ ہی ہوا ہے اور یہ محبت اور عقیدت ہر کسی سے نہیں ہوتی اس کے ٹھوس اسباب ہوتے ہیں ۔شامی صاحب کی ایک خصوصیت تو ان دنوں بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے وہ یہ کہ شامی صاحب نہ صرف یہ کہ ایک بلند پایہ صحافی ہیں انہیں سیاست اور اس کے پس منظر،رویوں،براہ راست یا بالواسطہ کرداروں سے بھرپور شناسائی ہے اور یوں اس پس منظر میں جب وہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہیں تو سننے والوں اور پڑھنے والوں کے سامنے ایک مکمل تصویر ابھر کر سامنے آ جاتی ہے اور جو خصوصیت بہت کم صحافیوں میں پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ صحافت اور سیاست کےساتھ شعر و ادب سے بھی ان کی گہری وابستگی ہے۔ شامی صاحب اس حوالے سے مولانا ظفر علی خاں اور ان کے پیشروئوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہیں بس مجھے اس دن کا انتظار ہے جب وہ کسی محفل میں ’’عرض کیا ہے‘‘ کہتے ہوئے اپنا کلام سنائیں گے کہ ابھی تک ان کی گفتگوئوں میں اپنا نہیں اساتذہ کا کلام ہی سننے کو ملتا ہے ان کی سیاسی گفتگو بھی اعلیٰ ادبی پیرائے میں ہوتی ہے وہ جس محفل میں ہوتے ہیں بس اس محفل میں وہی ہوتے ہیں شامی صاحب زمانے کے ساتھ نہیں چلتے زمانے کو ساتھ لےکر چلتے ہیں میں ٹی وی پر انہیں سنتا ہوں تو خوش ہوتا ہوں کہ ابھی ہمارے درمیان متوازن اور مہذب گفتگو کرنے والے دو چاراصیل لوگ موجود ہیں ۔
میں نے زندگی میں جو چند اعلیٰ انسانی خصوصیت کے لوگ دیکھے ہیں شامی صاحب ان میں سرفہرست ہیں مجھے وہ کبھی کبھی ’’خدائی خدمت گار‘‘ لگتے ہیں کہ جیسے کوئی بھی کام آتا ہے وہ سیدھا شامی صاحب کے پاس پہنچ جاتا ہے، اگر وہ کام خود کرنے کی پوزیشن میں ہوں تو خود کر دیتے ہیں بصورت دیگر فون اٹھاتے ہیں اور ان کو کال کرنے میں لگ جاتے ہیں جو اس حوالے سے مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں ۔صرف یہی نہیں بلکہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی جنازے میں وہ پہلی صف میں کھڑے نظر نہ آتے ہوں کبھی کبھی میرے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ جس روز انہیں کوئی جنازہ میسر نہ آئے تو ممکن ہے وہ ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر لیتے ہوں جنہیں فوت ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے مگر تاحال دفنائے نہیں گئے ۔صرف یہی نہیں بلکہ میرے جیسا معمولی انسان بھی مختلف تقریبات کا دعوت نامہ موصول ہونے کے بعد ان میں شرکت کی خواہش بھی رکھتا ہے مگر اب ہمت نہیں جبکہ شامی صاحب کی وضعداری یہاں بھی نظر آتی ہے وہ کئی تقریبات میں اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود محض میزبان کا دل رکھنے کے لئے ہی پہنچ جاتے ہیں اتنے بلند مقام پر پہنچنے کے باوجود انہیں غرور چھو کر بھی نہیں گیا وہ دوستوں کے لئے ریڈ لائن بھی کراس کر جاتے ہیں انہوں نے میرے حوالے سے ثاقب نثار کے منہ پر جلی کٹی سنا دی تھیں جس پر یہ شخص بہت بدمزہ ہوا تھا میرے کسی اور دوست کو اس مشکل وقت میں میرے کاندھے پر ہاتھ رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی ۔
میں نے شامی صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے اور یوں اس حوالے سے وہ میرے چند اساتذہ میں سے ایک ہیں عمر کے اس حصے میں ان کی گوناگوں مصروفیات اور معیار کو برقرار رکھتے دیکھ کر میں ان کی درازئی عمر اور صحت و سلامتی کی دعا مانگتا ہوں ہماری صحافت میں ابھی ماضی کی روایت کو برقرار رکھنے والے موجود ہیں مگر دن بہ دن کم ہو رہے ہیں ۔شامی صاحب صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ ہیں اور ان کی چمک کم نہیں ہو رہی ، اس میں اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے اور ہاں یاد آیا شامی صاحب صرف صحافی اور اعلیٰ درجے کے انشا پرداز ہی نہیں زبردست مقرر بھی ہیں وہ جب مائیک پر آتے ہیں تو ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی ‘‘ ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یوں مجیب الرحمان شامی ،مولانا ظفر علی خاں، شورش کاشمیری اور ان دوسرے صحافتی زعما کا تسلسل ہیں اللہ تعالیٰ ان کا سایہ قائم و دائم رکھے۔ (بشکریہ جنگ)