تحریر: محمد نوازطاہر
حق بات، جہد کرنے ، اس کیلئے ڈٹ جانے اور جان تک کی پرواہ نہ کرنے والے ہی تاریخ میں زندہ رہتے ہیں ، محرم الحرام اس کا سب سے بڑا گواہ ہے ، خاص طور پر ایسے معاشرے میں جہاں مسلمان ہونے کا دعویٰ کیا جائے ۔۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ایسے دعویدار’ مسلمانوں ‘ کی جنت ہے جو حق مارنا اپنا حق قرار دیتے ہیں اور پھر ’پھنے خاں ‘ بننا بھی اپنا حق اورا سٹیٹس سمجھتے ہیں ، یوں تو یہ ہر سرمایہ دار ، وڈیرے اور سیٹھ کا کلچر ہے لیکن میڈیا مالکان سب سے بڑے’ ’ مسلمان ‘‘ ہیں ۔ سماج کی ہر برائی دوسروں کے چہرے پر دیکھتے اور دوسروں کو دکھانے کا مکمل حق رکھتے ہیں، گرد سے اٹے ہوئے اپنے چہرے دیکھنا گوارا نہیں کرتے ۔ آیئنے کے سامنے کھڑے ہوکر شائد اسے بھی دھمکاتے ہونگے کہ وہ کردار کے برعکس ان کا شفاف چہرہ نہ دکھا کر اپنا پیدائشی حق اور فرض ادا نہیں کررہا اور دھندلا ہے جس کی وجہ کرپشن ہوسکتی ہے جبکہ آئینہ تو ان کے اپنے چہرے کی حقیقت بیان کررہا ہوتا ہے ۔ میڈیا مالکان کا ایک چہرہ ان کے اداروں میں کام کرنے والے کارکن بھی ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کس اشاعتی یا نشریاتی ادارے میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔؟
پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی تنظیم اور اس کی جہد کی تاریخ پاکستان کی عمر سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یو جے) کی ماں پنجاب یونین آف جرنلسٹس ( پی یو جے ) اسی دہائی کے اوائل میں قائم ہوئی تھی دہائی کے دوسرے نصف کے آغاز میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔اسے قائم کرنے والوں کی زیادہ تعداد غیر مسلموں کی تھی ، قیام پاکستان کے بعد انیس سو پچاس میں سندھ یونین آف جرنلسٹس ( موجودہ کراچی یونین آف جرنلسٹس ) اور راولپنڈی یونین آف جرنلسٹس کے کنونشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یوجے) ایک بامقصد نصب العین اور ضابطے کے تحت قائم کی گئی جس میں مشرقی پاکستان کے صحافیوں کی کوشش اور نمائندگی بھی شامل تھی ۔
پھر جیسے حالات میں ایک فوجی دور میں مشرقی پاکستان کی جگہ عالمی نقشے پر بنگلہ دیش نے لی ایسے ہی ایک فوجی دور میں پی ایف یو جے مغربی پاکستان ( موجودہ اسلامی جمہوری پاکستان) میں بھی دو حصے ہوگئی ۔اسے مزید تقسیم اور غیر فعال کرنے کیلئے میڈیا مالکان ، ریاستی اداروں کی کوششیں جاری رہیں جن میں خود میڈیا کارکنوں کے لوگ بھی شعوری اور لاشعوری طور پر آلہ کار بنے اور اب اس میں کئی گروپ بن چکے ہیں ، ہر گروپ دوسرے کو’ غلط‘ اور خود کو حقیقی نمائندہ قرار دیتا ہے حالانکہ باقاعدہ طریقِ کار اور آئینی عمل کے ذریعے کونسی یونین اور گروپ حقیقی ہے ، یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہں ہے ۔ میں کسی کی ناراضگی کی بھی پرواہ کیے بغیر یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ مجموعی تاثر سب دھڑوں اور گروپوں کے بارے میں یہ قائم ہوچکا ہے کہ کارکنوں کے نمائندے کارکنوں سے زیادہ مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ، یہ بات سو فیصد غلط بھی نہیں ، عدالتوں میں پڑی فائلیں ان چہروں کو بے نقاب کرتی ہیں ۔۔نجی محفلوں دفاتر اور سڑکوں پر ہونیو الی گفتگوملاحظہ فرما لیں اور کارکنوں کے حالات دیکھ لیں جو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ کارکنوں کی نمائندگی کس حد تک ہورہی ہے اور کس حد تک نظر انداز کی جارہی ہے ۔ ؟جو جدوجہد کرتے ہیں وہ بھی نظر آتے ہیں جو منافقت کرتے ہیں وہ بھی چھُپے ہوئے نہیں۔
ان دنوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کارکنوں کی اندھا دھند برطرفیاں جاری ہیں ۔ تنخواہیں ادا نہیں کی جارہیں ، کارکنوں کوچھانٹی اوربے روزگار کرنے کی دھمکی کے ساتھ بلیک میل کیا جارہا ہے ۔ ایک ایک کارکن چار چار افراد کا کام کررہا ہے ۔ اضافی کام کے بوجھ کے باعث کارکن بلڈ پریشر ، اعصابی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اشاعتی اور نشریاتی اداروں کی انتظامیہ آمدنی کو بھی خسارہ ظاہرکررہی ہے اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کرچکی ہے اور کررہی ہے ، ملک کے پرانے اور معروف اخبار نوائے وقت اور اس کے ذیلی اداروں میں تین تین ماہ سے تنخواہ ادا نہیں کی گئی، جنگ گروپ کی صورتحال بھی مثالی نہیں، مذہب کی آڑ اور سماج سدھار کا پرچار کرنے والے میڈیا مالکان بھی کارکنوں کو بروقت تنخواہیں ادا نہیں کررہے ۔ ان میں سے اکثریت کا نظریاتی تعلق دائیں بازو سے ہے جبکہ بایاں بازواس معاملے میں بائیں سے بھی دس قدم آگے ہے۔کارکنوں کے بتایا جاتا ہے کہ اشہارات کی کمی اور سرکاری اداروں کے اشتہارات کے بلوں کی عدم ادائیگی ،تنخواہوں کی ادائیگی میں رکاو ٹ ہے اسلئے سٹاف کم کیا جارہا ہے ۔ مالکان کا،ان کے تئیں موقف ہے کہ وہ اسٹاف کم کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ یہ موقف درست ہوسکتا ے لیکن سوال یہ ہے کہ جوکام چار افراد کا ہے ،وہ صرف ایک ورکر کیسے کر سکتا ہے ؟ دوئم یہ کہ کیا رپورٹر، فوٹوگرافر، سب ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر(اگر کہیں پروفیشنل ایڈیٹر موجود ہے تو) آٹھ گھنٹے کا ملازم ہیں؟ ان آٹھ گھنٹوں میں ان کا کھانے وغیرہ کا وقفہ کتنا ہے اور وقفے کے دوران اگر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کی رپور ٹنگ میں تاخیر کا وقت کس کے کھاتے میں جائے گا اور کیا اس کی ذمہ داری کارکن پر عائد ہوگی یا انتظامیہ خود اس کی ذمہ دار ہوگی۔؟ اخبار کی کاپی تیار کرنے کے مقررہ وقت کا خیال رکھنانیوزم روم کی ذمہ داری ہوگی یا پیشہ وارانہ مقابلہ اور معیار برقرار رکھنابھی اس کی ذمہ داری ہوگی ؟ انتظامیہ نصابی و کتابی طور پر بظاہر اسے اپنے ذمے لے بھی لے تو بھی حقیقی اس کا عملی با رکارکن پر ہی پڑے گا۔ اس وقت بھی سارا بوجھ کارکنوں کے کندھوں پر ڈالا جارہا ہے جس پر کارکنوں کی تنظیمیں اور لیڈر خاموش ہیں ۔ ڈیوٹی کے اوقاتِ کار اور اجرت و مراعات سے متعلق قانون نیوز پیپرز ایمپلائیز(سروس اینڈ کنڈیشن) ایکٹ پر عملدرآمد کے بجائے میڈیا مالکان نے اب کارکنوں کو قانون کے مطابق تنخواہ اور الاؤنس دینا تو درکنار بر وقت تنخواہ نہ دینا بھی اپنا حق سمجھ لیاہے ۔
غور طلب بات تو یہ ہے کہ میڈیالکان کھلم کھلا یہ کہتے ہیں کہ انہیں سرکار اشتہارات اور ان کے بل ادا کرے گی تو وہ تنخواہ دینگے ورنہ نہیں ،کیایہ اصول طے کرلیا جائے کہ کارخانے کی پیداوار سے منافع ملنے تک کارکنوں کو تنخواہ ادا نہیں کی جانا؟ ججوں سمیت عدلیہ کے عملے کو اُس وقت تنخواہ نہیں ملے گی جب تک کہ مجرموں پر عائد کیاجانے والے جرمانے کی ادائیگی نہیں ہوجاتی۔؟ فوج کو اس وقت تک تنخواہ نہیں ے گی جب تک وہ دشمن کا کوئی علاقہ فتح اور مال غنیمت نہیں لائے گی؟ صدر وزیراعظم، وزراء اور ارکانِ اسمبلی کو اس و قت تک تنخواہ نہیں ملے گی جب تک ان کے بنائے ہوئے قانون سے آمدنی نہیں ملتی؟ سرکاری افسربھی اس وقت تک تنخواہ کے حقدار نہیں ہونگے جب تک ان کی نگرانی میں چلنے والے ادارے نفع بخش نہیں بن جاتے؟ اس کا جواب اثبات میں نہیں نفی میں دیا جائے گا۔پھر صرف میڈیا انڈسٹری کے کارکن ہی کیوں اشتہاروں کے نفع اور مالک کے رحم و کرم پر چھوڑے جاسکتے ہیں؟یہ سوال معا شرے کے ہر فرد ، اور خاص طور پر کارکنوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں سے ہے ۔ غیرمسلم ساتھیوں کے یونین کے پودے کو مسلمان ساتھیوں نے تنا وربنایا، اب مسلم معاشرے میں اسلام زندرکھنے ، اسلام کے پرچار کے ٹھیکے دار مالکان کیوں یاد نہیں رکھتے کہ مزدور کاپسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ادا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ؟ اگر ہم مسلمان ہیں اور اس حکم کی تعمیل نہیں کرتے اور تعمیل کروانے کیلئے جدوجہد نہیں کرتے تو کیا مسلمان ہیں یا منافق؟ ہر طرف سے جواب پہلا نہیں دوسرا ہی آئے گا ۔(محمد نوازطاہر)۔