tasalli bakhsh jawab ye hai

مغالطہ گروں کی “جگالی”اور شاہ جی کی”کنکریاں”۔۔۔۔۔۔!!!!

تحریر: امجد عثمانی ، نائب صدر لاہور پریس کلب

“مغالطہ گر” دماغوں سے ایک بار پھر عجب “عفونت آمیز ابہام” ابل رہے ہیں۔۔۔ایک “گنجل دار گروہ” کی وہ “گھمبیرتائیں”جو اپنے زمانے کے ایک لبرل اخبار نویس کے قلم نے بیک جنبش”چھانٹ” ڈالیں،مغالطہ گر دماغ انہی “سلجھی گتھیوں”کو جان بوجھ کر”الجھا”کر ملک میں ہیجان پیدا کر رہے ہیں۔۔مغالطوں کی یہ “جگالی”فہم ہے یا وہم ؟اسلامیات اور نفسیات کے ماہرین ہی اس کی بہتر”تشخیص”کرسکتےہیں۔۔۔عہد ساز اخبار نویس سے میری مراد جناب سید عباس اطہر مرحوم ہیں،صحافت اور سیاست کے میدان میں ایک زمانہ جن کے گھٹنے چھوتا اور پانی بھرتا تھا۔۔۔۔شاہ جی کے “آسان بیانیے” کو بیان کرنے سے مغالطہ گروں سے چند سادہ سے سوالات ہیں کہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مقننہ متفقہ طور پر ہندوستان سے اٹھے “فتنے”کو غیر مسلم قرار نہ بھی دیتی اور امتناعی آرڈینیس نہ بھی آتا تو کیا پھر بھی”مسیلمہ مکتب فکر” کی اسلام میں کوئی گنجائش یے؟؟کیا جناب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آئے گا۔۔۔۔۔کیا حضرت امام مہدی اور حضرت مسیح علیہ السلام آگئے ہیں؟؟؟اگر جواب نہیں ہے تو اس عقیدے کے” بانی اور “پیرکاروں “کو کیا نام دیں گے؟؟کیا وہ مسلمان کہلا سکتے ہیں؟؟اگر نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ پھر وہ غیر مسلم ہی ٹھہریں گے۔۔۔۔اگر وہ غیر مسلم ہیں تو اسلامی عقائد اور اسلامی شعائر کیسے اپنا سکتے ہیں۔۔۔۔یعنی مسجد کیسے بنا سکتے۔۔۔اذان کیسے دے سکتے۔۔۔نماز کیسے پڑھ سکتے۔۔۔قربانی اور حج کیسے کرسکتے۔۔؟؟کیا ایسی صورت میں اسلامی عقائد اور شعائر کا استعمال “جائز” ہوگا۔۔۔۔۔۔؟؟اگر نہیں تو وہ “ناجائز یعنی غیر قانونی فعل ہی تصور ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر کسی “ناجائز امر” پر اسلام اور کسی اسلامی ملک کا آئین و قانون قدغن لگائے اور گرفت کرے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟؟؟

“مغالطہ گر” اچھی طرح جانتے ہیں کہ امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری اور مفتی محمود سے لیکر آج تک کے جید علمائے کرام ہرگز یہ نہیں کہتے کہ” مذکورہ گروہ” کا کوئی عقیدہ ہی نہیں ہونا چاہئیے۔۔۔۔۔وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ چونکہ “وہ” مسلمان ہی نہیں تو مسلمانوں کا روپ نہ دھاریں بلکہ نعوذ باللہ اس گروہ کے ” مبینہ نبی”۔۔۔۔”مبینہ امام مہدی” اور “مبینہ مسیح موعود” جو “دین اور شریعت”لائے ہیں اس کے مطابق جہاں چاہیں اور جب چاہیں عمل کریں۔۔۔۔کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔۔۔کیا یہ ایک مناسب مطالبہ نہیں؟؟؟آج مان جائیں یا کل بہرکیف” تنازعے” کا حل یہی ہے۔۔۔۔ہاں” مغالطہ گروں” کی گردان سے یہ عقدہ ضرور کھلا کہ آئین سازی کے دوران یہ سقم ضرور رہ گیا کہ”مسیلمہ مکتب فکر” کو احمدی لکھا گیا۔۔۔ احمد چونکہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ہے تو سوال یہ بھی ہے کہ کوئی غیر مسلم کیسے یہ”متبرک نسبت” استعمال کر سکتا ہے۔۔۔؟؟؟ پارلیمنٹ کو اپنے فیصلے کے اس”نکتے” پر رجوع کرنا چاہئیے اور متفقہ طور پر آئینی ترمیم لاکر اپنی”سنگین غلطی” کا ازالہ کرنا چاہئیے۔۔۔!!!

باز آمدم برسر مطلب۔۔۔۔!!عباس اطہر صاحب اپنے وقت کے بڑے ایڈیٹر اور کالم نگار تھے۔۔۔۔۔۔”کنکریاں” کے نام سے کالم لکھتے۔۔۔۔۔۔انہوں نے جون دو ہزار دس کو روزنامہ ایکسپریس میں چار کالموں کی ایک شاندار اور جاندار سیریز لکھی۔۔۔یہ “کنکریاں”نہیں تلخ حقائق کی” سنگ باری” تھی جو “مغالطوں”کو بھسم بھسم کر جاتی ہے۔۔۔۔میں نے اس “سنگ باری”سے اپنے قارئین کے لیے “کچھ کنکریاں”چنی ہیں۔۔۔۔.عباس اطہر صاحب روشن خیال اور جمہوریت پسند آدمی تھے۔۔۔۔ انہیں اسی کی دہائی میں ضیا مارشل لاء کے دوران جلاوطن ہونا پڑا۔..۔وہ امریکہ چلے گئے تھے۔۔۔۔شاہ جی نے لکھا کہ

نیویارک میں ایم آر ڈی کی ایک شاخ بنی جس کے نائب صدر زندہ محمود باجوہ تھے۔۔۔۔۔۔ وہ “اس فرقے” سے تھے۔۔۔۔جب بھی کوئی تنظیمی اجلاس ہوتا تو موصوف اپنی “تبلیغ” کے لیے کسی موقع کی تلاش میں رہتے۔۔۔۔۔۔ تنگ آمد بجنگ آمد میں نے ایک دن کہہ ہی دیا کہ آپ کا سارا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے پنجاب میں ایک “نبی” ایجاد کر لیا اور ایسا کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچا کہ ہم لوگ اپنی” ماں بولی پنجابی “کو ذریعہ تعلیم بننے کے قابل نہیں سمجھتے حالاں کہ وہ شاعری کے حوالے سے دنیا کی چند ایک خوب صورت ترین زبانوں میں شامل کی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔عباس اطہر صاحب” اس گروہ” کی “تبلیغ” کے حوالے سے اپنا “ذاتی تجربہ”بھی بتاتے ہیں۔۔۔۔لکھتے ہیں کہ میں تب چھٹی جماعت میں تھا اور میرے والد صاحب فیصل آباد میں لیبر آفیسر تھے۔۔۔۔۔ادھر ایک ڈاکٹر ابا جی کے دوست بن گئے۔۔۔۔ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو ان کے پاس جاتے۔۔۔۔دو مہینے بعد ہی انہوں نے علاج میں “تبلیغ “شامل کر لی۔۔۔۔۔ایک دن ہمارا چپڑاسی غصے میں آگیا اور اس نے ماجرا والد صاحب کو جا سنایا۔۔۔۔۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہم علاج کے ساتھ ساتھ اس “جنت” سے بھی محروم ہو گئے جس کا “نقشہ” ڈاکٹر صاحب کھینچا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔شاہ جی نے لکھا کہ مسلمانوں کا یہ اٹل عقیدہ ہے اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے اور اس میں کسی ترمیم یا اضافے کی گنجائش نہیں۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ بھٹو نے اس گروہ کو اقلیت کیوں قرار دیا؟؟اس سلسلے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ لبرل اور “تھوڑی تھوڑی پی” لیتا ہوں کہنے والے بھٹو کے سینے کے اندر ایک پکا مسلمان بیٹھا،جو ختم نبوت کے مسئلے پر کمپرومائز نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔انہوں نے” اس گروہ”کے متعلق فیصلہ کرانے کے لیے مکمل جمہوری طریقہ اختیار کیا۔۔۔پارلیمنٹ میں بحث کرائی۔۔۔۔۔مرزا ناصر کو”باون گھنٹے” کا وقت دیا کہ وہ کھل کر اپنا موقف بیان کر لیں۔۔۔۔۔اس گروہ کو اقلیت قرار دینے کا فیصلہ ایک آئینی ترمیم کے تحت آیا۔۔۔۔انہوں نے لکھا کہ مجیب الرحمان شامی نے انکشاف کیا کہ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب مرزا ناصر سے پوچھا گیا کہ جو لوگ آپ کے اسلام کو درست نہیں مانتے آپ انہیں کیا نام یا تشخص دیتے ہیں۔۔۔۔مرزا ناصر نے جھٹ سے کہا کافر۔۔۔انہوں نے لکھا کہ ستر کے الیکشن میں “یہ گروہ” بھٹو کا اتحادی بھی تھا اور انہیں اس وجہ سے بھی اقلیت قرار دینا مشکل تھا کہ امریکہ اور برطانیہ ان کے سرپرست بھی تھے۔۔۔۔۔۔۔اس گروہ کو اقلیت قرار دینا بھٹو صاحب کے چند ایک ایسے کاموں میں تھا جو ان کے سوا کوئی نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔شاہ جی نے مختلف حوالوں سے لکھا کہ ایک زمانے میں علامہ اقبال۔۔۔۔مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کو”اس گروہ” کے “بانی”سے متعلق خوش فہمی تھی لیکن یہ تب کی بات ہے جب”موصوف”نے مسلمانوں کے متفقہ بنیادی عقائد میں وہ” گنجل” نہیں ڈالے تھے جو بعد میں انہیں اقلیت قرار دلوانے کا باعث بنے۔۔۔

شاہ جی نے دو ٹوک لکھا کہ بدقسمتی سے “اس گروہ”کی شکل میں ایک مذہبی اور معاشرتی تنازع سامنے آیا۔۔۔۔۔۔۔مرزا غلام احمد “مبلغ اسلام “کے طور پر نمودار ہوئے اور تھوڑے ہی عرصے میں کسی نئے فرقے کے بجائے ایک ترمیم شدہ “متوازی مذہب” پیش کر دیا۔۔۔۔۔انہوں نے اصل اسلام کے اندر “اپنی ذات” شامل کرکے اسے اپنے پیروکاروں پر نئے سرے سے” نازل” کر دیا۔۔۔۔اس “مذہبی ڈھانچے” میں خلیفہ سمیت وہ تمام اصطلاحات بھی شامل ہیں جو آغاز اسلام کے ساتھ منسلک تھیں۔۔۔۔انہوں نے ختم نبوت کے انتہائی حساس اور مقدس عقیدے کو تفسیر اور تشریح کے نام پر اس طرح کنفیوز کیا کہ ایک طرف ان کے پیروکار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ خاتم النبیین کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔۔۔۔۔عام مسلمانوں اور اس گروہ کے عقیدے میں یہی وہ “پیچ” ہے جو تئیس مارچ اٹھارہ سو نواسی کو “دین قادیان” کے بعد کفر اور اسلام کی اس نئی جنگ کی بنیاد بنا۔۔۔۔۔ایک منتخب اور نمائندہ پارلیمنٹ نے اس گروہ کو اقلیت قرار دیا لیکن انہوں نے اپنی آئینی حیثیت کو قبول کرنے سے انکار کیا۔۔۔۔وہ اپنے ارکان کو الگ اور باضابطہ جماعت یا برادری کے طور پر منظم کرکے آئینی اور قانونی جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے تو اپنی اس اجتماعی طاقت سے بھی محروم نہ ہوتے جو پاکستان میں دوسری اقلیتوں کو حاصل ہے۔۔۔۔۔اس گروہ کی اکثریت نے اپنی علیحدہ شناخت بتائے بغیر خود کو مسلمان آبادیوں میں گم کر لیا۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ اگر اس گروہ کا عقیدہ دائرہ اسلام سے باہر نہیں آتا تو وہ عام مسلمانوں میں کس عقیدے کی تبلیغ کرتے ہیں؟

شاہ جی نے لکھا کہ وہ پاکستان کے شہری ہیں لیکن جس نظام سے اپنی انسانی اور قانونی حقوق مانگتے ہیں اس کے آئین کا خود ہی احترام نہیں کرتے۔۔۔۔انہوں نے اپنی آئینی حیثیت سے مفاہمت نہ کرکے تنازع اتنا بڑھا دیا کہ جنرل ضیاء الحق کو امتناع قادیانیت آڑڈیننس جاری کرنا پڑا۔۔۔۔۔۔یہی نہیں عدالت عظمی نے بھی امتناع قادیانیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ سے متفقہ طے شدہ مسئلے پر پچاس سال بعد “جگالی” کیوں؟؟سوال یہ بھی ہے کہ مقننہ۔۔۔عدلیہ اور صحافت کے پلیٹ فارم سے “ممنوع گروہ” کی بیک وقت”مکروہ وکالت” محض اتفاق ہے یا کوئی منظم مہم ؟؟(امجد عثمانی ، نائب صدر لاہور پریس کلب)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں