تحریر: انورحسین سمرا، تحقیقاتی صحافی۔۔
سیانے تے سنجیدہ لوگ کہتے ہیں کہ جس معاشرے میں پولیس، عدلیہ اور مولوی کے ادارے پوری ایمانداری، خلوص نیت، بلا خوف اور لالچ کے کام کریں اس معاشرے کو ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرنے سے کوئی مائی کا لال نی روک سکتا. پولیس درست ہونے سے معاشرے میں جرائم کی بیخ کنی اور امن و امان قائم کرکے بلا تفریق عوام کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے. عدلیہ انصاف کی فراہمی سے معاشرے میں توازن پیدا کرسکتی ہے، اور دوہرے معیار کے ناسور کو دفن کر سکتی ہے. مولوی کا ادارہ معاشرے سے بےراہ روی، انتشار اور مذہبی منافرت کی حوصلہ شکنی کرکے اعتدال اور میانہ روی کو فروغ سے اخلاقی قدروں کو بحال کرنے میں مدد کرسکتا ہے. لیکن افسوس سے یہ اعتراف کرنے میں کوئی شرمندگی نی کہ یہ تینوں ادارے نہ صرف اپنے فرائض سے غافل ہوچکے ہیں بلکہ غیر طبعی موت مر چکے ہیں. کوئی بھی بڑھے سے بڑا اخلاق سوز ظلم، زیادتی اور عدل کا قتل ان اداروں کو بیدار کرنے میں کارگر ثابت نی ہو رہا اور معاشرے تباہی کی آخری حدود پر پہنچ چکا ہے. سب گدھوں کی طرح اس معاشرے کے بے جان جسم سے اپنا اپنا حصہ نوچ رہیے ہیں. عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ کو تیسری دفعہ ایک ہفتہ میں تبدیل کیا جا چکا ہے. پولیس کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ملزم موقع پر گرفتار ہوا لیکن پولیس میں کوئی ایسا قابل، پیشہ وار اور اہل افسر میسر نی جو اس کیس کی شفاف اور درست تفتیش کرسکے اور مدعی کو انصاف فراہم کرسکے. یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ بااثر افراد نے مدعی کی خواہش پر مقدمہ درج نہ ہونے دیا تھا اب مدعی تفتیش میں اپنے ملزمان کو شامل کروانا چاہتا ہو اور آئے روز ٹیم کا سربراہ تبدیل کردیا جاتا ہے. عمران خان بظاہر تو دوہرے معیار کے خلاف جنگ لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن شاید ان کو علم نی کہ اگر ان کا اعتماد پولیس افسران پر نی تو عام آدمی کیسے اس ظالم اور کرپٹ پولیس فورس سے انصاف لے سکتا ہے. عمران خان کو شاید یہ ادراک بھی نی کہ عام عوام کے مقدمات کی تفتیش یا تفتیشی افسر تبدیل کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جبکہ ان کےلیے ایک ہفتے میں تین سربراہ تبدیل ہوچکے ہیں کیا یہ دوہرا معیار عدل نی ہے کیا. اب اس ٹیم کا سربراہ ایسے پولیس افسر کو لگایا گیا ہے جو اپنی تعیناتی کے حوالے سے صوبے اور وفاقی میں وجہ تنازعہ بن چکا ہے اور قانون و آئین کو بالائے طاق رکھ کر تابعداری اور جی حضوری کی معراج حاصل کرچکا ہے. اس کی تفتیش اور رپورٹ خود بخود متنازعہ ہو جانی ہے جو شاید کپی تان کی مطلوبہ خواہش بھی ہوگی کیونکہ کپی تان نے مقدمہ کے اندراج نہ ہونے اور پولیس کی مدعیت میں درج مقدمہ کی تفتیش کی رپورٹ کو اگلے جنرل الیکشن میں مبینہ طور پر بطورکارڈ استعمال کرنا ہے کیونکہ ابسلیوٹلی ناٹ دم توڑ چکا ہے. اب عوام سے اس نا انصافی کے خاتمے کے بیانیہ پر ووٹ لینے کی کوشش ہوگی. کپی تان اس کو سیاسی مخالفین کی درگت بنانے اور اسٹیبلشمنٹ کو بیک فٹ پر لیجانے کے لیے بھی مبینہ طور پر استعمال کرے گا. اب سوال یہ ہے کہ کیا کسی حکمران نے ایمانداری اور فرض شناسی سے ملک میں عدلیہ، پولیس اور مولوی کے اداروں کو درست کرنے کی کوشش کی تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم، جرائم کا خاتمہ کیا جاسکے اور اس کی اخلاقی قدروں کو اعلیٰ اسلامی اصولوں پر ڈالا جا سکے. جب تک ادارے مضبوط اور عدل پر قائم نی ہونگے تب تک معاشرے کی ترقی و خوش حالی دیوانے کا خواب لگتی ہے۔( انور حسین سمرا، تحقیقاتی صحافی)۔۔