hujoom mein ali hassn zardari

معاشی اصلاح،وقت کی اہم ضرورت

تحریر: علی حسن۔۔

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے معاشی نظام کی مجموعی اصلاح اورحکومتی اخراجات میں بڑی کمی لانے کے لئے جامع سفارشات طلب کرلی ہیں اور ایف بی آر کی مکمل ڈیجیٹائزیشن اور آٹو میشن کے عمل کے فوری آغاز کی ہدایت کی ہے۔ وزیر آعظم کے مطابق جس کی نگرانی وہ خود کریں گے۔ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے لئے دنیا کا بہترین ماڈل اپنایاجائے اور اس ضمن میں بہترین خدمات کے فوری حصول کے امکانات کا جائزہ لیاجائے تاکہ ایف بی آرنظام میں شفافیت ہو، ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہو، ٹیکس چوری ، کرپشن ، سمگلنگ کا خاتمہ ہو اور خودکار نظام کے ذریعے عوام اور کاروباری برادری کے لئے آسانیاں لائی جائیں۔بہترین کارکردگی دکھانے والے افسران اور ٹیکس دینے والے ہیروز کی پزیرائی ہو اور کالی بھیڑوں کو سزاملے۔ انہوں نے یہ ہدایت حالیہ دنوں میں دورہ گوادر کے فوری بعد وزیراعظم ہاﺅ س میںمنعقدہ اعلی سطحی اجلاس کے دوران دی۔ اجلاس کو چئیرمین ایف بی آر ملک امجد زبیر ٹوانہ نے ٹیکس وصولیوں میں اضافے، ایکسپورٹرز کو ری فنڈ کی ادائیگی، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے، ٹیکس چوری، ادارہ جاتی کرپشن، انسداد سمگلنگ، آٹو میشن اور معیاری خدمات کی فراہمی پراقدامات سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے ایف بی آر کی بریفنگ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن اور آٹو میشن کا عمل فوری طورپر جدید خطوط اور دنیا میں موجود بہترین ماڈلز کی بنیاد پر بنایا جائے اور اس ضمن میں بین الاقوامی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔ یہ پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔انہوں نے کہاکہ ماضی میں جو ہوگیا، اس سے ہم سبق سیکھ کر آگے بڑھیں۔ رونے دھونے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ ہمیں چیلنج قبول کرتے ہوئے ادھار کی زندگی سے نجات حاصل کرنے کی راہ اختیار کرنا ہوگی۔ ملک کو درپیش حالات کے سب ذمہ دارہیں جبکہ قابل اور اچھے لوگ بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ آج ہم نے محنت سے درست راستے پر سفر شروع کیا تو جلد ہی خوش حالی اور کامیابی کی منزل سے ہم کنار ہوں گے، ان شاءاللہ، وزیراعظم شہبازشریف نے کہاکہ لائق، ایماندار اور پیشہ وارانہ قابلیت رکھنے والے افسران کو انعام دیں گے اور تحسین کریں گے۔

وزیر آعظم کا معاشی نظام کی مجموعی اصلاح اورحکومتی اخراجات میں بڑی کمی لانے کے لئے جامع سفارشات طلب کرنا لائق تحسین قدم ہے کیوں کہ پاکستان معاشی اور اقتصادی اپنی تاریخ کے خطر ناک تاریک مرحلہ پر کھڑا ہے۔ معاشی ماہرین ملک کی معیشت پر بھیانک تبصرے کر رہے ہیں۔ بعض کو تو کہنا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ملک تشویس ناک مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ پاکستان کو معاشی نظام کی مجموعی اصلاح اورحکومتی اخراجات میں بڑی کمی لانے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ ملک کو کب تک مختلف ممالک سے قرضی لے کر چلایا جائے گا۔ کیوں نہیں مقتدر حلقے اور حکمران کڑوی گولی نگلتے ہیں۔ یہ کڑوی گولی تو نگلنا وقت کا تقاضہ بن گئی ہے۔ حکومتی اخراجات میں سفارشات آنے تک قدم قدم پر اخراجات میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض حلقے یہ سوچتے ہیں اور اظہار بھی کرتے ہیں کہ بڑے اخراجات پر قابو پایا جائے۔ اس مرحلے پر بڑے اور چھوٹے اخراجات پر قابو پانے کا معاملہ یا مسلہ نہیں ہے بلکہ دفاتر میں بجلی کا ایک بلب بند کرنے کا معاملہ چھوٹا سا لگتا ہے لیکن قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ وزراء اور سرکاری افسران کے ہوائی جہاز سے سفر پر بھی پابندی عائد کرنے چاہئے۔پھر سرکاری دفاتر کی تعداد اور افسران کی تعداد میں فوری طور پر کمی عمل میں لانا چاہئے۔ 2010 میں آئین میں 18 ویں ترمیم کی گئی۔ ۔ اس وقت ملک میں 43سرکاری ڈویزن ہیں جس کے ماتحت چار سو محکمے ہیں۔ سی طرح صوبوں اور وفاق میں بھی محکموں کی موجودگی غیر ضروری ہے۔ تمام سرکاری ملازمین کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ ملک بھر میں پنشن کی مد میں سالانہ خرچہ تیرہ کھرب روپے بتایا جاتا ہے۔ اس ترمیم کے بعد سے حکومت سندھ تو بار بار مطالبہ کر رہی ہے کہ ایسے تمام محکموں کو وفاقی سطح پر ختم کیا جائے جس 18 ویں ترمین کے ماتحت آتے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی ہے۔ بعض ذمہ دار حلقوں میں تو یہ باز گشت بھی سنی جاتی ہے کہ 18 ویں ترمیم پر دوبارہ غور کیا جائے ۔ فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی جانب سے ذرائع ابلاغ کے منتخب نمائندوں کو دی جانے والی کم از کم دو بریفنگ میں کھل کر ان خیلات کا اظہار کر تھا۔ ایک سابق گورنر اسٹیٹ بنک شاہد کاردار نے ایک وقت کہا تھا کہ سرکاری اسٹاف کو دو تہائی کم کرنے کی ضرورت ہے۔ قیصر بنگالی نے حال ہی میں کہا ہے کہ آدھے محکموں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایف بی آر کے ایک سابق سربراہ شبر زیدی بھی مختلف اقدامات کی ضرورت پر بار بار زور دیتے رہے ہیں۔ اسٹیٹ بنک کے ایک اور سربراہ عشرت حسین نے تو عمران حکومت کے دور میں جامع سفارشات تیار کر کے وزیر آعظم کو پیش کی تھیں لیکن ان کے پیش کردی سفارشات کسی الماری میں دھول میں اٹی پڑی ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ آعلی سرکاری افسران اور حکمرانوں نے اس فائل کو کھول کر دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ اس کی ضروورت اس لئے محسوس نہیں کی جارہی ہے کہ قرضہ مل رہا ہے۔

اس ملک کا مسلہ یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر حکمران طبقہ انتظامی اخراجات میں کسی قسم کی کمی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یاد کریں کہ ایک سابق وزیر آعظم محمد خان جونیجو مرحوم نے قومی اسمبلی کے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے تجویز دی تھی کہ تما م بڑی گاڑیوں یعنی 1300سی سی سے بڑی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی جائے۔ مرحوم وزیر آعظم کو کئی حلقوں میں مزاق آڑایا گیا تھا حالانکہ وہ پابندی عائد کرنا اس وقت کی بھی اہم ترین ضرورت تھی۔ اب تک ضرورت بن گئی ہے۔ آعلی سرکاری حکام اور افسران کیوں نہیں اپنی زندگی پر سادگی لاگر کرتے ہیں۔ کیوں ضروری ہے کہ قرضے لے کر ہی جیا جائے۔ ایسی زندگی تو ہر گزرنے والا روز ہمیں دیوالیہ ہونے کے قریب لے جا رہا ہے۔ وزیر آعظم نے کار خیر کام کیا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ حکومت کے سارے کام کاج چھوڑ کر معاشی نظام کی مجموعی اصلاح اورحکومتی اخراجات میں بڑی کمی لانے کے لئے اقدامات جنگی بنیادوں پر کریں ، اس کے بغیر اس ملک کا کسی حال میں گزارہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی نمائندہ ایسٹر پیرز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ” چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومتی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے محصولات کے حصول کے اقدامات کر رہے ہیں، توانائی کے شعبے کی عمل داری اور ادارہ جاتی نظم و نسق میں اصلاحات ضروری ہیں۔ حکومتی ملکیتی اداروں کی کارکردگی اور انسدادِ بدعنوانی کے اقدامات کو بہتر بنایا جائے، سرمایہ کاری اور روزگار بڑھانے کے لیے نجی کاروبار کو برابری کا میدان ملنا چاہیے“۔آئی ایم ایف تو مختلف اوقات میں تجاویز دیتا رہتا ہے لیکن ان پر عمل کرنا تو پاکستان کے حکمران طبقہ کی ذمہ داری ہے جسے وہ نبھانے میں بظاہر ناکام نظر آتا ہے۔ (علی حسن)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں