تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
آج سے 23 سال پہلے ایک قومی اخبار کے نیوز ڈیسک سے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا تو اساتذہ کرام نے عدالتی خبر کے باب میں “بنیادی نکتہ” سمجھایا کہ اعلی عدلیہ کے جج ساتھ “مسٹر جسٹس”لکھنا ضروری ہے۔۔پھر دیکھا کہ کورٹ رپورٹر سے ڈیسک ایڈیٹر اس”صحافتی ضابطے” کے پابند بھی تھے۔۔تب جج شہرت سے دور بھاگتے اور سنسنی خیز ریمارکس کے بجائے فیصلوں کی صورت “سامنے” آتے تھے۔۔اخبارات میں کسی کیس کی بڑی خبر بھی چھپتی تو تین زیادہ سے زیادہ کالم چھپتی اور سرخی میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ لکھا جاتا اور ضمنی میں کہیں چیف جسٹس یا کسی جسٹس کا نام آتا۔۔تب منصب نہیں ادارے مقدم ہوا کرتے تھے۔۔۔شومئی قسمت کہ وقت کا پہیہ گھومتا جا رہااور زندگی کے ہر شعبے میں انحطاط بڑھتا جا رہا ہے۔۔دو دہائیوں میں صحافت سے لیکر عدالت تک کتنا کچھ بدل گیا۔ہوا یوں کہ عہدے اداروں پر غالب آگئے۔۔۔خود نمائی نے بھیانک روپ دھار لیا اور اچھے بھلے لوگ شہرت اور عزت میں فرق بھول گئے۔۔اور یہی وجہ ہے کہ اب شہرت یافتہ لوگ بھی عزت کو ترستے ہیں۔عدلیہ کی بات کریں تو ہمارے عہد میں سابق چیف جسٹس جناب افتخار چودھری کا دور “جوڈیشل ایکٹوازم”کا زمانہ تصور کیا جاتا ہے۔۔۔ناقدین کا خیال ہے کہ انہوں نے وہ کام بھی کر ڈالے جو ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے تھے۔۔۔وطن عزیز کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ کراچی تا خیبر پوری قوم ایک” نہتےجج” کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔۔عوام نے ایک آمر کے سامنے “حرف انکار” پر جناب افتخار چودھری کو وہ “حرف سپاس” پیش کیا کہ جو کبھی نہیں بھول پائے گا ۔۔لوگوں نے چودھری صاحب کے لیے دید و دل فرش راہ کردیے اور انہیں کندھوں پر اٹھا کر مسند انصاف پر بٹھا دیا۔۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے چیف صاحب کا سورج “نصف النہار” پر آگیا اور عوام کی منتخب جمہوری حکومت “چراغ سحر”ٹھہری۔۔اپنے صحافتی کیرئیر میں پہلی مرتبہ دیکھا کہ ایک چیف جسٹس بھی “ارباب اقتدار”کی طرح روزانہ اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنے اور ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز کا حسن ٹھہرے۔۔عدالتی محاذ پر قدرے ٹھہرائو کے بعد جناب میاں ثاقب نثار چیف جسٹس کے عہدہ جلیلہ پر متمکن ہوئے تو پھر ایک بھونچال سا آگیا۔۔۔وہ جناب افتخار چودھری کے “نقش قدم” پر چلے اور “تیز گام”چلے۔۔جناب ثاقب نثار کی “سبک رفتاری” کا اندازہ اس رپورٹ سے لگالیجیے کہ2000 سے پہلے “سوئو موٹو” کی اکا دکا مثالیں ملتی ہیں، لیکن جسٹس افتخار چوہدری نے از خود نوٹسز کی انتہا کردی۔۔انہوں نے اپنے سات سالہ دور میں 79 از خود نوٹس لیے۔۔ان کے علاوہ جسٹس ثاقب نثار بھی خاصے سرگرم رہے اور انہوں نے دو سالہ دور میں 47 نوٹس لیے، اور یوں سالانہ شرح کے لحاظ سے وہ افتخار چوہدری سے بھی آگے نکل گئے۔۔انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے لیے “بابا رحمتا”کا لقب بھی ڈھونڈ لیا اور باقاعدہ شکوہ کیا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ “بابا رحمتا” ایسے ہی لگا رہتا ہےمگر مجھے کسی کی پروا نہیں جو مرضی آئے تنقید کرے۔انہوں نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ آج میں واضح کرتا ہوں کہ” بابا رحمتا “کون ہے اور میں نے اس کا تصور کہاں سے لیا؟؟؟ انہوں نے کہ کہا یہ تصور میں نے ادیب اشفاق احمد سے لیا ہے کیونکہ “بابا رحمتا” لوگوں کیلئے سہولیات پیدا کرتا ہے۔ “بابا رحمتا” نے بھی خوب میڈیا کوریج لی اور جناب افتخار چودھری کی طرح شہ سرخیوں کی زینت بن کر شاداں و فرحاں ہوا۔۔تیس مئی دو ہزار چوبیس کو سپریم کورٹ میں ایک سماعت کے دوران” بابا رحمتا”کے بجائے “Bumble bee” کی گونج سنائی دی۔۔جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کو جا کر بتا دیں کہ عدلیہ میں کالی بھیڑیں نہیں۔۔انہوں نے وزیراعظم کو پیغام دیا کہ اگر انہیں عدلیہ میں کالی بھیڑیں نظر آتی ہیں تو وہ ریفرنس دائر کریں۔۔جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہم کالی بھیڑیں نہیں ” بمبل بی“ ہیں۔۔۔میڈیا نے “Bumble bee” کی بھنک پڑتے ہی “بابا رحمتا” کی طرح آسمان سر پر اٹھا لیا اور” بمبل بی “کے من پسند معنی کشید کر لیے۔۔کسی نے “کالے بھونڈ” تو کسی نے “کالی بھڑیں” کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی۔۔صرف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے احتیاط کا مظاہرہ کیا اور من و عن “بمبل بی” کے الفاظ سے سرخی جمائی۔۔۔۔ادارہ فروغ قومی زبان کی جدید لغت سمیت مجھے بھی کہیں ” کالے بھونڈ” اور “کالی بھڑیں”نہ ملیں تو میں نے گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ میں شعبہ انگریزی کے سربراہ استاد گرامی قدر جناب پروفیسر محبوب عارف کے دروازے پر دستک دی اور ان سے “بمبل بی” کا معنی پوچھا تو انہوں نے کہا کہ شہد کی بڑی مکھی یعنی “شاہ مکھی” بمبل بی” کا مناسب ترجمہ ہے۔۔حکمرانوں کا تو وتیرہ ہے کہ کوئی بات من کو نہ بھائے تو کبھی عدالتوں کو “کینگرو کورٹس” اور کبھی ججوں کو “کالی بھیڑیں” کہہ دیا۔۔جب چاہا اخبار نویسوں کو” زرد صحافت”اور “لفافہ صحافی” کا طعنہ دے دیا۔۔عزت مآب ججوں کے شایان شان نہیں کہ وہ عجیب و غریب “اصطلاحیں” گھڑتے پھریں۔۔۔منصف کے لیے منصف کا لفظ ہی سجتا ہے۔۔قہر خدا کا کہ کہاں جج حضرات مسٹر جسٹس کہلاتے تھے، کہاں جج صاحب خود اپنے آپ کو “بمبل بی” قرار دے رہے اور ذرائع ابلاغ “بمبل بی”کو”کالے بھونڈ” اور “کالی بھڑیں” رپورٹ کر رہے ہیں۔۔!! جسٹس اطہر من اللہ ہی وضاحت کر سکتے ہیں کہ انہوں نے “بمبل بی”کا”استعارہ” کیوں اور کس تناظر میں استعمال کیا؟؟؟وہی بتا سکتے ہیں کہ “بمبل بی” سے مراد کالا بھونڈ ہے۔کالی بھڑ ہے یا شہد کی بڑی مکھی۔؟؟بہر حال بمبل بی کے معنی کچھ بھی ہوں،عزت مآب ججوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ دو تین دہائیوں میں بنچ کا تقدس پامال ہوا،جو کسی صورت نیک شگون نہیں۔۔(امجدعثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔