تحریر: علی حسن۔۔
کراچی میں یہ خبر عام ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان، پاک سر زمین پارٹی، ڈاکٹر فاروق ستار، مہاجر قومی موومنٹ ، اور دیگر اردو زبان بولنے والے بکھرے ہوئے سیاست دانوں اور عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں بعض عناصر سرگرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان عناصر کا خیال ہے کہ اگر ان سب لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں کیا گیا تو کراچی کا ووٹ عمران خان کے پاس چلا جائے گا اور ان کے نامزد امیدوار منتخب ہو جائیں گے۔ وہ 2018 کے انتخابات کی مثال دیتے ہیں لیکن کیا سندھ کے اردو بولنے والے لوگ ایم کیو ایم کے امیدواروں کو آئندہ انتخابات میں ووٹ دینے میں دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے۔ 2022میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج لوگوں کے ایم کیو ایم سے عدم دلچپی کے رجحان کا پتہ دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے امیدواروں کی شکست کے بعد ایم کیو ایم کے رہنماﺅں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر سینہ کوبی کی ہوگی۔ اپنا اپنا سر دھنا ہوگا۔ ایم کیو ایم کے سیاسی رہنماﺅں کی ایک فہرست سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے ، اسے دیکھنے کے بعد یقین ہو چلا ہے کہ اردو بولنے والے ووٹر ان اربوں پتی رہنماﺅں کو تو ووٹ دینے میں اس دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کریں گے جو وہ ماضی میں کرتے آئے تھے۔ پھر ایم کیو ایم میں ان نام نہاد سیاسی ” رہنماﺅں “ کی لگامیں اور تنابیں کسنے والا کوئی بھی نہیں رہا ہے۔ انہیں کتنا ہی یکجا کر دیا جائے، کتنا ہی مشغول رکھا جائے لیکن یہ لوگ کامیابی کا ممکنہ نتیجہ نہیں دے سکیں گے۔
ایم کیو ایم کے ارب پتی رہنماﺅں کی فہرست نے یاد لایا کہ ایوب خان کے دور میں اس وقت کے ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق نے سرمایہ کے ارتکاز کے حوالے سے ایک اصطلاح 22 خاندان متعارف کرائی تھی ۔ یہ وہ خاندان تھے جن کے پاس پا کستان کی دولت موجود تھی۔ ان تمام لوگوں میں سرمایہ دار اور صنعتکار شامل تھے۔ انہوں نے صنعتوں میں سرمایہ کاری کی تھی ۔ اسی پروپگنڈہ کو ذہن میں رکھ کر بھٹو نے صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا۔ آج کل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس کا عنوان ہے ” 25 ارب پتی“ خاندان۔ پھر ایک فہرست دی گئی ہے۔ اس فہرست میں ان لوگوں کے نام گرامی ہیں جو ایم کیو ایم کے مختلف ادوار میں وزرائ، آکاتین اسمبلی اور سینٹ رہ چکے ہیں یا بعض ابھی تک ہیں۔ فہرست پر نظر ڈالی جائے تو جن لوگوں کے نام اس فہرست میں موجود ہیں، ان کا خاندانی پس منظر جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ اور ان کے گھرانے سیاست سے قبل کس حیثیت کے حامل تھے۔ ” 25 ارب پتی خاندان“ کے عنوان سے جو فہرست وائرل ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم نے متوسط طبقے کے مہاجروں کو حقوق دلانے کا نعرہ لگانے والے مہاجر رہنما جن کے پاس پہنے کو چپل اور کپڑے اور رہنے کو ڈھنگ کے مکان نہیں تھے آج وہ ارب پتی کھرب پتی بن چکے ہیں، محلّات میں رہتے ہیں اور امریکا ، دبئی، برطانیہ ، کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ اور دیگر مغربی ممالک کی سٹیزن شپ ہیں ، مڈل کلاس کا نعرہ لگانے والے ایم کیو ایم کے 25 ارب پتی خاندان کی فہرست میں جن افراد کے نام دئے گئے ہیں ان میں سے اب تک تو کسی سے بھی تردید نہیں کی ہے کہ وہ ارب پتی نہیں ہیں۔ اپنے کھرب پتی ہونے کی وضاحت بھی نہیں کی ہے۔ پاکستان میں اکثر افراد سیاست کرنے کی بجائے اسے کاروبار کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کون سا ٹھیکہ ہوگا جس میں سیاست دانوں کا حصہ نہ ہوتا ہو، کونسا کاغذ ہے جسے سیکریٹریٹ میں لے جانے اور باہر لانے کی ” ذمہ داری“ سیاست کرنے والے لوگ ہی انجام دیتے ہیں۔
ایم کیو ایم سے وابسطہ سیاست کرنے والے عناصر کو خصوصا معلوم ہونا چاہئے کہ اس دور کے اردو بولنے والے آ کابرین نے تحریک پاکستان میں اپنا ذاتی پیسہ خرچ کیا۔ جلسہ، جلوس، دعوتیں سب کا اہتمام ان ہی لوگوں کے پیسے سے ہوتا تھا۔ ایک مشہور نام ہے راجہ صاحب محمود آباد۔ راجہ صاحب کے والد کی ہندوستان میں ریاست محمود آباد تھی۔ راجہ صاحب کا نام محمد امیر احمد خان تھا۔ انہوں نے 1937 میں مسلم لیگ کی انتخابات میں نکامی کے بعد لکھنﺅ میں لیگ کی میٹینگ بلائی گئی توایک جلسے پر 30 لاکھ روپے کی بڑی رقم اس دور میں خرچ کی تھی جب پیسے کی قدر تھی۔ ایم کیو ایم کی سیاست کرنے والوں کو کیا علم کہ 1937میں 30 لاکھ روپیہ کتنی بڑی رقم تھی۔ راجہ صاحب نے حکومت پاکستان میں کوئی عہدہ، کوئی مراعت، کوئی سہولت اور کوئی جائیداد حاصل نہیں کی حالانکہ قائد آعظم محمد علی جناح کے ساتھ ان کے ذاتی نو عیت کے تعلقات تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لندن چلے گئے تھے اور وہیں انتقال کر گئے تھے ۔
فہرست دیکھنے کو ملی تو ذہن میں خیال آیا کہ اپنے پاکستانی سیاست دانوں سے گزارش کی جائے کہ وہ بھار ت کی ریاست مغربی بنگال کی تیسری بار وزیر آعلی منتخب ہونے والی خاتون کے بارے میں ضرور پڑھ لیں تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ سیاست میں عوام کے دلوں پر راج کس طرح کیا جاتا ہے۔ ممتا بینر جی نے تیسری بار مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ بن کر ریکارڈ قائم کر دیا۔ یہ بھارت کی تاریخ میں 15سال مسلسل وزیر آعلی رہنے والی پہلی سیاست دان ہیں ۔ ممتا جی انڈیا کی طاقتور ترین اور دنیا کی سو بااثر ترین خواتین میں بھی شامل ہیں اور یہ بھارت کی واحد سیاست دان بھی ہیں جو سیاست دان کے ساتھ ساتھ گیت نگار، موسیقار، ادیب اور مصورہ بھی ہیں۔ یہ کئی کتابوں کی مصنفہ، سینکڑوں گیتوں کی شاعرہ اور بہت سی بیسٹ سیلر پینٹنگز کی مصوّرہ بھی ہیں اور یہ ہندوستان کی پہلی سیاست دان بھی ہیں جس نے سادگی اور غریبانہ طرز رہائش کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی کو شکست دے دی۔ یہ بنگال میں دیدی کہلاتی ہیں اوردنیا میں کامیاب سیاست کی بہت بڑی کیس اسٹڈی ہیں۔ پاکستانی سیاسست دانوں کے لئے بھی کیس اسٹڈی ہیں اور ایم کیو ایم سے وابستہ لوگوں کو ضرور پڑھنا چاہئے۔
ممتا کالج پہنچیں تو اسلامی تاریخ سے متعارف ہوئیں اور آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات میں اترتی چلی گئیں۔ یہ اکثر اپنے آپ سے سوال کیا کرتی تھیں۔ حجاز جیسے جاہل معاشرے میں ایک شخص ( پیغمبر اسلام صلی اللہ ہو علیہ وسلم ) نے انقلاب کیسے برپا کر دیا؟ ممتا کہتی ہیں کہ جب انہوں نے جواب تلاش کرنا شروع کیا تو پتا چلا سادگی اور عاجزی نبی اکرم صلی اللہ ہو علیہ وسلم ور ان کے ساتھیوں کا سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ آپ لوگ مال و متاع، عیش و آرام اور نمود و نمائش سے بالاتر تھے اور کردار کی یہ خوبیاں انسانوں اور لیڈرز دونوں کو عظیم بنا دیتی ہیں۔ ممتا بینرجی نے یہ فارمولا چیک کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سادگی کو اپنا ہتھیار اور زیور بنا لیا اور پھر کمال ہو گیا۔یہ چھ بار اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ ممتا بینر جی نے 1998 میں اپنی سیاسی جماعت آل انڈیا ترینمول کانگریس بنائی تھی۔ یہ جماعت ہر الیکشن میں پہلے سے زیادہ سیٹیں جیت رہی ہے۔ممتا جی سے پہلے مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی 34 سال حکمران رہی۔ ملک کی بڑی سے بڑی سیاسی جماعت بھی کمیونسٹ پارٹی کا مقابلہ نہ کر سکی۔ لیکن یہ آئیں اور اسے ناک آو ¿ٹ کرنا شروع کر دیا اور 2021 کے الیکشن میں کمیونسٹ پارٹی کا ایک بھی امیدوار اسمبلی نہیں پہنچ سکا۔ یہ مسلمانوں اور خواتین دونوں میں بہت پاپولر ہیں۔ بنگال کے 30فیصد ووٹرزمسلمان ہیں۔ یہ سب انھیں ووٹ دیتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ مسلمانوں کا احترام کرتی ہیں۔
ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں۔ ممتا بینرجی نے یہ کمال کیا کیسے؟ اس کے پیچھے ان کی سادگی اور عاجزی ہے۔ عاجزی اور سادگی اتنے بڑے ہتھیار ہیں کہ انھیں اگر ایک برہمن خاتون بھی اپنا لے تو یہ حکومت کا ریکارڈ قائم کر دیتی ہے اور لوگ حیرت سے منہ کھول کر دھان پان سی اس غریب خاتون کو دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ آج جب سادگی اور عاجزی کو پاکستانی سیاست دانوں نے ایک طرف رکھ دیا ہے لیکن ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہی اقتدار میں رہیں۔ اپنے اقتدار میں رہنے کے لئے وہ لوگ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے اور بنانے کی مشین بنے ہوئے ہیں لیکن کب تک۔ اپنا اور قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ راجہ صاحب محمود آباد اور ممتا بینر جی فکر کرنے اور سوچنے کی دعوت دیتے ہیں۔ (علی حسن)۔۔