تحریر: عبدالولی۔۔
موجودہ حکومت کا ساتھ دینے پر ایم کیو ایم پاکستان کو روشن مستقبل نظر آرہا تھا کہ عمران خان نے تو وعدے پورے نہیں کئے ہوسکتا ہے کہ پی ڈی ایم ہی ہمارے ڈیمانڈز کو پورا کرے لیکن ایسا نہیں ہوا اور ایم کیو ایم پاکستان ایک بار پھر حکومت کا مدت ختم ہونے کے قریب محض سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی کرسی ہی چند دنوں کےلئے لے سکی۔
تین ماہ بعد ملک بھر میں جنرل الیکشن ہونے جارہے ہیں قومی اسمبلی کی مدت بھی ختم ہونے جارہی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کس بیانئے کے ساتھ الیکشن میں جائیگی؟
مردم شماری کا مطالبہ کیا لیکن آج بھی ایم کیو ایم کو مردم شماری پر تحفظات ہے۔بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے بھی جو ایم کیو ایم پاکستان کو تحفظات تھے وہ بھی ختم نہیں ہوئے اور آخر کار ایم کیو ایم نے بدترین نتائج کے ڈر سے بائیکاٹ کرکے ہی بہتر سمجھا۔کے فور منصوبہ مکمل کرنے کا مطالبہ کیا وہ بھی پورا نہیں۔ایم کیو ایم جو کراچی کے ٹرانسپورٹ پر بات کرتی تھی اب وزیر ٹرانسپورٹ نے الیکڑک سمیت جدید بسیں چلوادی ہے جس کے بعد ایم کیو ایم کے پاس کہنے کا کچھ نہیں ہے۔
اب ایک چیز رہ گئی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان بلدیاتی الیکشن کی طرح جنرل الیکش سے بائیکاٹ کا اعلان کرے یا پھر ایک ہی بیانیہ لیکر چلے کہ ہمارے گورنر سندھ نے رمضان میں افطاریاں کروائی،راشن تقسیم کئے،گورنر ہاوس کے بجائے باہر ہی سحریاں کی،کراچی گیمز کروائے،دنبے تقسیم کئے اور آئی ٹی ٹیسٹ کا انعقاد ممکن بنایا۔
اس کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان کے پاس کوئی منشور نہیں،کوئی بیانیہ نہیں ہے۔ایم کیو ایم اس کوششوں میں ضرور ہے کہ نئی مردم شماری پر الیکشن ہو جو کہ ہونہیں سکتے ورنہ پھر تین ماہ میں الیکشن نہیں ہوسکیں گے۔ایڈمنسٹیریٹر ڈاکٹر سیف الرحمان ایم کیو ایم پاکستان کے کوٹے پر بنے تھے لیکن چھ ماہ میں ماسوائے گورنر ہاوس میں بیٹھنے کے کراچی کےلئے کچھ نہیں کیا۔
ایم کیو ایم ضرور مہاجر کارڈ کا استعمال کریگی لیکن ایسا ممکن نہیں،اب جنرل الیکشن میں ایم کیو ایم کے گڑھ سے بھی پیپلز پارٹی ہی بھاری اکثریت سے الیکش جیت سکتی ہے۔ایم کیو ایم سوچے فکر کرے اور غلطیوں پر کام کرے تاکہ وہ اسمبلی کی سیاست میں نظر آتی رہے۔(عبدالولی)۔۔
ایم کیو ایم کا روشن مستقبل؟
Facebook Comments