تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، بندہ اگر کسی شہری بیوی کا شوہر ہو، اور کسی دن پریشان ہوتو بیگم پوچھتی ہے۔۔ ڈارلنگ تم اداس کیوں ہو اتنے؟؟۔۔ ایسا ہی سین اگر کسی پنڈ یا دیہات میں ہوتو پینڈو بیوی پوچھتی ہے۔۔ ہن کی موت پے گئی تینوں؟؟۔۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ہر انسان کو کبھی نہ کبھی موت پے جاتی ہے۔۔ کوئی بھی ایسا کام جو اس کی دلچسپی کا نہ ہو، یا اس کام کے لئے ٹائم نہ ہو، پھر دیکھو کام کے دوران کیسے موت پے جاتی ہے۔۔؟؟ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر دوسرے انسان کو کسی نہ کسی صورت موت پے ہی جاتی ہے۔۔ لاہور کے مالیوں نے علامہ اقبال سے عقیدت کا اظہار کیا تو بجائے انہیں شاباش دینے، انہیں تھپکی لگانے یا حوصلہ بڑھانے کے۔۔ قوم کو سوشل میڈیا پر موت پے گئی۔۔ باباجی فرماتے ہیں کہ اگر آپ دوپہر تک سوتے رہیں تو آپ کے ناشتے کے پیسے بچ سکتے ہیں۔۔ باباجی ایسا ہی کرتے ہیں۔۔ صبح فجر کے بعد سوتے ہیں اور دوپہر کو اس وقت سو کر اٹھتے ہیں جب باقی قوم۔۔ قیلولے۔۔ کے چکر میں چکرا رہی ہوتی ہے۔۔ باباجی کو اگر آپ صبح کا کوئی کام کہہ دیں۔۔مثال کے طور پر بجلی یا گیس کا بل بھرنا ہے۔۔بچے کو اسکول چھوڑنا یا لانا ہے۔۔ بس پھر باباجی کی صورت دیکھنے والی ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے انہیں موت پے گئی۔۔
نوے فیصد پاکستانی ایک نفسیاتی بیماری ’’پیرانوئیا ‘‘کا شکار ہیں جس میں مریض کو غیرحقیقی عدم اعتماد یعنی ’’انا رئیلسٹک مس ٹرسٹ‘‘ کا شکارہوتا ہے، اسے ایسا لگتا ہے جیسے عالمی طاقتیں اس کا فون ٹیپ کررہی ہیں اور انہیں سیٹلائٹ سے دیکھ رہی ہیں۔۔ پیرا نوئیا کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہر دوسرا پاکستانی یقین رکھتا ہے کہ کورونا ویکسین لگاکر اس کے اندر چپ فٹ کرکے سارا ایمان باہر ’’کڈھ ‘‘لیاجائے گا۔۔ خواتین بچوں کو جنم نہیں دے سکیں گی۔۔۔ ہماری تنہائی کی بھی وڈیو کہیں نہ کہیں کوئی اس چپ کی مدد سے بنارہا ہوگا۔۔۔باباجی کو مچھلی کھاتے ہوئے موت پے جاتی ہے۔۔ وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ۔۔ مچھلی کے کانٹے زہر لگتے ہیں۔۔ ایک بار واقعہ سناتے ہوئے بولے۔۔ جب میری نئی نئی شادی ہوئی تو زوجہ ماجدہ نے مچھلی فرائی کرلی۔۔ دسترخوان پر ڈھیرساری مچھلی دیکھ کر ویسے ہی موت پے گئی۔۔ لیکن پھر بھی خوش اخلاقی کے اعلیٰ درجے کا مظاہرہ کرتے ہوئے زوجہ ماجدہ سے کہا۔۔مجھے مچھلی سے کانٹے نکال کر دو، زوجہ ماجدہ نے بالکل ایسا ہی کیا۔۔ اس نے سارے کانٹے نکال کر مجھے دے دیئے اور خود ساری مچھلی کھاگئی۔۔باباجی مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔۔ بس یہی تو اچھی بات ہے میری زوجہ ماجدہ کی کہ وہ کبھی میری کوئی بات ٹالتی نہیں۔۔۔
کہتے ہیں کہ پنجابی بندے کے لئے دنیا کا سب سے مشکل کام، یا ایسا کام جس سے اسے موت پے جاتی ہو۔۔ وہ مشکل کام کسی معزز بندے کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے گالی پر کنٹڑول کرنا ہے۔۔باباجی کو پورا محلہ دانشور کا درجہ دیتا ہے، پورے محلے کے نوجوان اس بات کو دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ باباجی کو ہر چیز کے بارے میں بخوبی کماحقہ آگاہی حاصل ہوتی ہے، وہ ہر ٹیکنالوجی کا علم رکھتے ہیں اور جدید سائنس پر ان کی گہری نظر ہے۔۔ ایسا ہی ایک بھولا بھٹکا نوجوان ایک روز باباجی کی بیٹھک میں دراندازی کربیٹھا۔۔ محفل اپنے جوبن پر تھی، باباجی کا ذہن تیزی سے چل رہا تھا اور ان کے شگوفے محفل کو زاروقطار ہنسنے پر مجبور کررہے تھے۔۔ نوجوان کی انٹری پر ساری گردنیں نوجوان پر مرکوز ہوگئیں۔۔باباجی نے سوالیہ نظروں سے نوجوان کو دیکھا۔۔۔ وہ جلدی سے کہنے لگا۔۔ باباجی۔۔ آپ سے کچھ پوچھنے آیا ہوں۔۔ باباجی نے کہا۔۔ پوچھو بیٹا، کیا پوچھنا ہے؟؟ وہ ہچکچاتے ہوئے بولا۔۔ باباجی ایپل لوں یا بلیک بیری؟؟ باباجی نے ترنت جواب دیا۔۔ بیٹا کینو کا سیزن ہے، مارکیٹ میں وافر مقدار میں ہے، کینو لے لو، کینو۔۔نوجوان نے سٹپٹا کر کہا۔۔باباجی میں موبائل فون کی بات کررہا ہوں۔۔۔ باباجی نے ایک آنکھ میچتے ہوئے کہا۔ بیٹا موبائل پر توجہ دینے کے بجائے صحت پر توجہ دو۔۔۔ جان ہے تو جہان ہے۔۔۔ہمیں یاد پڑتا ہے اسی محفل میں ایک پڑھاکو قسم کے نوجوان نے بڑے فلسفیانہ انداز میں باباجی سے پوچھا۔۔ باباجی یہ عورت آخر چاہتی کیا ہے؟؟ باباجی نے کہا۔۔ بیٹاجی میری شادی کو تیس سال ہوگئے، میں آج تک اپنی زوجہ ماجدہ کو نہیں سمجھ سکا کہ وہ آخر چاہتی کیا ہے تو باقی عورتوں کے بارے میں کیا خاک رائے دوں گا۔۔۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ عورت کی زندگی لمبی، ہنستی مسکراتی اور ٹیشن فری کیوں ہوتی ہے؟؟ سوچا تو ہوگا، لیکن جواب نہیں ملا ہوگا۔۔باباجی سے ایک بار ہم نے بھی یہ سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا۔۔ ویری سمپل۔۔کیوں کہ عورت کی کوئی بیوی نہیں ہوتی،جو اسے ٹینشن دے۔۔باباجی کہتے ہیں قبرستانوں میں جاکر دیکھیں، دس قبروں میں سے دسویں قبر عورت کی ہوگی، باقی نو قبریں مرد حضرات کی، کسی کو برین ہیمرج ہوا ہوگا، کسی کو ہارٹ اٹیک، کوئی گاڑی تھلے آکر مرا ہوگا۔۔ کسی نے خودکشی کی ہوتی ہے۔۔ جب کہ دسویں قبر جو کسی عورت کی ہوتی ہے اس پر کتبہ تحریر ہوتا ہے۔۔۔ حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے، نذیراں بی بی عمر ایک سو سات سال۔۔ باباجی کی ’’عورت کش ‘‘باتیں سن کر ہماری ہنسی نہیں رکتی۔۔ہم باباجی کو مزید اکساتے رہتے ہیں اور ان کا ذہنی فتور مسلسل باہر آتا رہتا ہے۔۔ ہم نے باباجی سے پوچھا۔۔باباجی، یہ عورتیں حسین اور عقل مند کیوں نہیں ہو سکتیں؟؟۔۔ باباجی برجستہ بولے۔۔ کیوں کہ پھر وہ مرد ہوتیں۔۔
بات قبر کے کتبے کی ہوئی تھی۔۔فرانس میں ایک خچر کی قبر پر کتبہ لگا ہوا تھا۔۔میگی کی یاد میں، جس نے اپنی زندگی میں دو کرنلوں، چار میجروں، دس کپتانوں، بیالیس سارجنٹوں اور چار سو انتالیس دیگر فوجیوں کو دولتیا جمائیں اور جب آخر میں اس نے ایک بم کو دولتی جھاڑی تو اس کی موت واقع ہو گئی۔۔۔پرانے وقتوں کی بات ہے۔۔۔ایک میراثی کو بادشاہ نے سزائے موت دے دی۔ سر قلم کرنے سے پہلے بادشاہ نے شانِ بے نیازی سے پوچھا، ‘مرنے سے پہلے کوئی آخری خواہش ہو تو بتاؤ؟۔۔میراثی بولا۔۔حضور والا میں ایک ایسا ہنر/فن جانتا تھا جس کا استعمال ساری زندگی نہیں کر سکا۔ اب چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے میں اپنے ہنر کو ایک مرتبہ استعمال کر لوں۔۔ بادشاہ نے اجازت دے دی۔۔جب ہنر کی تفصیلات پوچھی گئی تو میراثی بولا۔۔ حضور والا میں دو سال کے اندر آپکے گھوڑے کو اڑنا سکھا سکتا ھوں۔بادشاہ چونکہ وعدہ کرچکا تھا اس لیے لا محالہ دو سال کی مہلت دینی پڑ گئی۔ کسی شخص نے میراثی سے پوچھا کہ دو سال کی مہلت تو لے لی مگر گھوڑا کیسے اڑاؤ گے؟۔۔میراثی نے جواب دیا، دیکھ بھائی گھوڑا تو مجھے اڑانا نہیں آتا۔ مگر ہوسکتا ہے دوسال میں بادشاہ مر جائے۔ یا ممکن ہے کہ دوسال میں، میں ہی طبعی موت مرجاؤں یا عین ممکن ہے کہ دو سال میں گھوڑا ہی مرجائے۔۔ واقعہ کی دُم: اسے موجودہ حکومت سے قطعی نہ جوڑا جائے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ شادی شدہ کنواروں کو اور کنوارے شادی شدہ لوگوں کو جن نظروں سے دیکھتے ہیں۔۔ ایسی نظروں کو۔۔۔موت پے گئی ہے، کہتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔